سلام کرنے کی اہمیت
اَبْخَلُ
النَّاسِ مَن بَخِلَ بِالسَّلَامِ
سب
سے بڑا بخیل وہ ہے جوسلام میں بخل کرے (طبرانی، بیہقی،)
اس
وجہ سے کہ سلام کرنے میں نہ کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ کچھ مشقت ہوتی ہے اور نہ کوئی اذیت بس صرف زبان کو حرکت دینی ہوتی
ہے ۔ اس لیے جو انسان اتنا عمل بھی نہ کرسکے اس سے بڑا بخیل کون؟ اللہ تعالیٰ حفاظت
فرمائے ،قرآن پاک میں سلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاِذَا
حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۰ۭ اِنَّ
اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا۸۶ [٤:٨٦]
اور
جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں
لفظوں سے دعا دو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سلام
بھی چونکہ دعاء ہے اس لیے جب کوئی سلام کرے تو سلام کرنے والے کو اس سے بہتر جواب دینا
چاہئے’’ یعنی وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘ کہنا چاہئے
فَاِذَا
دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللہِ
مُبٰرَكَۃً طَيِّبَۃً۰ۭ
كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ
تَعْقِلُوْنَ۶۱ۧ [٢٤:٦١]
اور
جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں کو) سلام کیا کرو۔ (یہ) خدا کی طرف سے مبارک
اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
سیدنا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے موقعہ پر
بشارت دینے والے فرشتے حاضر ہوئے تو سلام عرض کیا
وَلَقَدْ
جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا۰ۭ قَالَ
سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ۶۹ [١١:٦٩]
اور
ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں)
سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
صالحین
کی روحیں قبض کرتے وقت پیغام مسرت سناتے وقت
کہتے ہیں:
الَّذِيْنَ
تَتَوَفّٰىہُمُ الْمَلٰىِٕكَۃُ طَيِّبِيْنَ۰ يَقُوْلُوْنَ
سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ۰
ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۳۲ [١٦:٣٢]
(ان کی کیفیت یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی جانیں نکالنے لگتے ہیں اور
یہ (کفر وشرک سے) پاک ہوتے ہیں تو سلام علیکم کہتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) جو عمل تم
کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہوجاؤ ( نحل:۳۲)
جنت
میں اہل جنت سے فرشتے بطور مبارک باد کہیں گے :
وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا
سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِيْنَ۷۳
تو
اس کے داروغہ ان سے کہیں کہ تم پر سلام تم بہت اچھے رہے۔ اب اس میں ہمیشہ کے لئے داخل
ہوجاؤ (زمر:۷۳)
بہشتی
ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت کہیں گے:
دَعْوٰىھُمْ
فِيْہَا سُبْحٰنَكَ اللّٰہُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْہَا سَلٰمٌ
(جب وہ) ان میں (ان نعمتوں کو دیکھوں گے تو بےساختہ) کہیں گے سبحان
الله۔ اور آپس میں ان کی دعا سلامٌ علیکم ہوگی ( یونس: ۱۰)
اللہ
تعالیٰ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمانا:
وَاِذَا
جَاءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ
اور
جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) سلام
علیکم کہا کرو ( انعام:۵۴)
قیامت
کے دن اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اس طرح سرفرازی عطا فرمائیں گے:
لَہُمْ
فِيْہَا فَاكِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ۵۷
وہاں
ان کے لئے میوے اور جو چاہیں گے (موجود ہوگا)
(یٰسین:۵۷)
سلام
کی اس سے بڑی اہمیت اور کیا ہوگی کہ نماز کی تکمیل ہی سلام پر ہوتی ہے:
السَّلاَمُ
عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہ۔اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ
عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْن
ان
حقائق کے پیش نظر معلوم ہوا کہ’’ سلام ‘‘ ایک خوشگوار اسلامی شعار ہے اس لیے ہر مسلمان
اپنے مسلمان بھائی کو ممنونیت کے ساتھ بہتر سے بہتر طریقہ پر سلام و جواب کرے ۔اس کے
برخلاف ہاتھ کے اشارے سے گردن یا چشم یا ابرو کے اشا رے سے سلام کرنا ،یہ سلام کرنے
والے بے حرمتی اور دل شکنی اور ناشکری ہے ،اس لیے کہ یہ:
ہَلْ
جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۶۰ۚ
نیکی
کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے (رحمٰن:
۶۰)
کی
منفی مثال ہوگی،اور گناہ کا مرتکب الگ سے ہوگا، اس لیے کہ ’’سلام ‘‘کرنا سنت ہے اور
اس کا جواب دینا منفرد پرواجب عین ہے ،اور
جماعت پر واجب کفایہ،ایک فرد بھی سلام کا جواب دیدے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائیگا،وگرنہ
سب عاصی ہوں گے۔
سلام
کرنا منع ہے ایسے آدمی کو:
جس
وقت وہ گناہ میں ملوث ہو
شرابی
کو جب وہ نشہ میں ہو
پاخانہ
پیشاب اور غسل کرنے والے کو
جس
کا ستر عورت کھلا ہوا ہو
کھانا
کھانے والے کو
وضو
کرنے والے کو
مسجد
میں آکر جہراً سلام کرنا اس وقت کے کوئی ذکر وغیرہ میں یا نماز میں مشغول ہو
قرآن
پاک تلاوت کرنے والے کو
مجلس
وعظ میں
ایسے
عالم کو جو تصنیف و تالیف میں مشغول ہو
حضور
صلی اللہ علیہ والسلام کا ارزاد گرمی بھی پیش نظر رہے:
افشو
السلام تسلموا
سلام
کو پھیلاؤ سلامت رہوگے (جوامع الکلم)
أفشوا
السلام بینکم[مسلم/۵۴
’’تم آپس میں سلام کو عام کرو‘‘
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔