Thursday 1 August 2013

05:58
پیش کردہ مفتی عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  

عید الفطر کی اہمیت

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!

میرے محترم بزرگو! ،دوستو ! اور عزیز ماؤں بہنوں!
عید کا تہوار عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے لئے بڑی خوشی کا دن ہے عید کا تہوار مسلمانوں کے لئے بڑا عظیم الشان اور محترم ہے یہ تہوار رمضان المبارک کے     ا ختتام پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کے لئے ایک انعام ہے ۔رمضان المبارک کے پورے مہینہ میں مسلمان دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات میں تراویح کی نماز ادا کرتے ہیں اور اس میں قرآن پاک کے پڑھنے اور اس کے سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس محنت کا بدلہ یا مزدوری عید الفطر کے دن عنایت فرماتے ہیں ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ بڑی برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے اسی مہینہ میں قرآن پاک نازل ہوا اسی مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزاروں راتوں سے زیادہ افضل با برکت اور رحمت والی ہےجس کو ’’لیلۃ االقدر‘‘یاشب قدر کہا جاتا ہے۔روزہ رکھنا رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے روزہ دار اللہ تعالیٰ سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔
’’روزہ‘‘ جس کو عربی میں’’ صوم ‘‘اور ہندی میں’’ برت‘‘کہتے ہیں ۔روزہےدوقسم کے ہوتے ہیں ایک ’’نفلی‘‘ اور دوسرا’’ فرض‘‘نفلی روزے تو چند دنوں کو چھوڑ کر پورے سال کبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں ۔یہ روزے اگر کوئی رکھتا ہے تو اچھی بات ہے نہ رکھے تو کوئی گناہ یا برائی نہیں لیکن’’ فرض ‘‘ روزے جو صرف رمضان کے مہینہ میں ہی رکھے جاتے ہیںان روزوں کا رکھناہر بالغ مسلمان مرد عورت پر فرض ہے بشرطیکہ کوئی اور شرعی عذرنہ ہو جان بوجھ کر بغیر کسی مجبوری کےروزے نہ رکھنا بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔
روزہ رکھنے کا ٹائم ’’صبح صادق ‘‘ سے پہلے کچھ کھا نا پینا اسی کو سحری کہا جاتا ہے اورصبح صادق سے لیکر شام سورج غروب تک کچھ بھی نہ کھنا پینا اور اپنی بیوی سے صحبت نہ کرنا ۔ اور شام کو سورج غروب کے بعد کچھ کھنا پینا اس کو ’’افطار‘‘کہا جاتا ہے ۔اس عمل کا نام روزہ ہے۔
 روزے کی فرضیت کا حکم سن 2 ہجری میں تحویلِ قبلہ کے واقعہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہو۔ آیتِ روزہ شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ [٢:١٨٣]
مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡوَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵(البقرہ)
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو۔
ہجرت کے بعد روزے کو فرض کرنے کی حکمت یہ تھی کہ جب مسلمان توحید و رسالت، نماز اور ما قبل ہجرت نازل ہونے والے دیگر احکامِ قرآن پر عمل کرنے کے خوگراور پابند ہوجائیں تو پھر انہیں روزوں کا حکم دیا جائے۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عاشورا کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب صیامِ رمضان المبارک کی فرضیت کا حکم آیا تو صومِ عاشورا کا حکم منسوخ ہو گیا جیسا کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دی۔ جب رمضان فرض ہو گیا تو اُسے چھوڑ دیا گی۔‘‘(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب وجوب صوم رمضان، 2 :  669، رقم :  1793)
احادیث میں روزے کی بہت فضیلتیںبیان کی گئی ہیں جن میں سے چند کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
(۱) جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں
(۲) جنت کو روزے داروں کے لئے سجایا جاتا ہے
(۳) جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازے کانام ’’رَیّان‘‘ ہے اس دروازے سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔
(۴)رمضان المبارک کے پہلے دس دن رحمت کے اور دوسرے دس دن مغفرت کے اور آخری دس دن جہنم کی آگ سے آزادی ملنے کے ہیں۔
(۵)رمضان المبارک کے روزوں کا ثواب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کتنا ملے گا۔
(۶)ہر چیز کی زکوٰۃہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے
(۷)افطار کے وقت روزے  دار جو دعا مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے
(۸)جو شخص رمضان المبارک میں حلال روزی سے افطار کرائے اس کے لئے فرشتے رحمت کی دعاء کرتے ہیں اور جبرئیل علیہ السلام شب قدر میں اس سے مصافحہ کرتے ہیں جس کی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں نرمی (رقت) پیدا ہوتی ہے اور آنکھوں سے آنسوں بہتے ہیں۔(روح البیان،فضائل اعمال:۵۹۸)
(۹)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ صرف کھانے پینے سے بچنے کا نام نہیں بلکہ بہیودہ باتوں اور گناہوں سے بچنا بھی روزے کی حقیقت ہے۔
محترم حضرات میں آپ کو یہاںیہ بھی بتاتا چلوں کہ روزے رکھنے کے کیافوائد ہیں؟ ،اس کو مختصر اً پیش خدمت ہیں۔
(۱)روزہ  رکھنے سے انسانی جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے ،اور بیماری سے لڑنے کی قوت پیدا ہوتی ہے،اور جسم سے زہریلے مادے کم ہوجاتے ہیں۔
(۲)روزہ اانسان کے اندر صبرو ضبط ،تحمل اور قوت ا رادی پیدا ہوتی ہے۔
(۳)روزے کے ذریعہ انسان میںروحانی اور ملکوتی قوت پیدا ہوتی ہےحیوانی اور شیطانی قوت کمزور ہوتی ہے۔
(۴)روزہ شکم سیر لوگوں کو بھوکے لوگوں کا احساس دلاتا ہے،تاکہ یہ شکم سیر لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں
(۵)روزہ مالدار لوگوں کو غربت کا احساس کراتاہے
(۶)روزہ آپس میں بھائی چارگی اور محبت پیدا کرتا ہے
(۷)روزے سے من کی پاکی ،دل کی صفائی ،ہوتی ہے اور نفس پرکنٹرول ہوتاہے
(۸)روزہ مومن کو گناہوں سے روکتا ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’میری  امت کو رمضان کے مہینہ میں پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی (علیہم السلام)کو نہیں دی گئیں۔
(۱)روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے(اس بو کی قدر مشک سے بھی زیادہ ہوتی ہے)
(۲)روزے دار کے لئے دریا کی مچھلیاں افطار کےوقت تک دعاء کرتی رہتی ہیں۔
(۳)ہر روز جنت کو روزے داروں کے لئے سجایا جاتا ہے،اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں قریب ہے کہ میرے یہ نیک بندے (دنیا) کی مشقتیں پھینک کر تیری طرف آئیں۔
(۴)رمضان المبارک میں سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتاہے ۔
(۵)رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کے لئے مغفرت کی جاتی ہے ،صحابہؓ نے عرض کیا کیا یہ رات شب قدر والی رات ہے ،فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری ختم ہونے پر اس کی مزدوری دیدی جاتی ہے۔
الغرض ان سب باتوں سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کا مہینہ بڑی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔جب رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہوتا ہے اور اس کی آخری رات یعنی جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو (آسمانوں میں) اس کا نام” لیلة الجائزة“ (انعام کی رات ) سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں )کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے، جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ ! اُس ربِ کریم کی(بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:’’ فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی‘‘۔
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
    اے میرے بندو ! مانگو کیا مانگتے ہو ؟ میری عزت و جلال کی قسم ! آج کے دن اس (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم ! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت پاکرلوٹ جاؤ ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ ( الترغیب و الترہیب)
عید الفطر بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسرے رمضان میں قیام لیل (تراویح) کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ ساتھ خرچ اورخیرات کرنے کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اس دن کو مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔
عیدکے دن سب سے اہم کام جو نماز عید سے پہلے کر لینا سنت ہے۔ وہ فطرے کی ادائیگی ہے، صدقہ فطر رمضان میں ہو جانے والی لغویات اور بے ہودہ کاموں کی طہارت کرتا ہے اور مساکین کی خوراک کا ذریعہ ہے اس لئے اس کو نماز عید سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہئے اگر کسی عذر کی وجہ اس وقت تک ادا نہ ہو پائے تو زندگی میں جب بھی ادا کریں گے ادا ہی ہو گا ۔ قضا نہیںہے۔
تمام مالک نصاب مرد ہو یا عورت پر صدقہ فطرادا کرنا واجب ہےاپنےنابالغ بچوں کی طرف سے بھی ان کے ولی پر فطرہ ادا کرنا واجب ہے۔ چاہے وہ بچہ عید کی صبح ہی پیدا ہوا ہو۔
نماز عید کی تیاری کے سلسلے میں  عرض کردوںکپ پہلےاپنے ناخن تراشیں، مسواک کریں، غسل فرمائیں، نئے کپڑے ہوں تو وہ پہنیں نہیں تو دھلے ہوئے اچھے کپڑے ہوں وہ پہنیں،خوشبو لگانا چاہئے،اور فجر کی نماز محلے کی مسجد میں با جماعت اداکرنی چاہئے اور کوشش کریں کہ عید گاہ جلد پہنچ جائیں۔
عیدالفطر کے دن کچھ میٹھا کھا کر نماز کے لئے تشریف لے جائیں، اگر کھجوریں میسرہوں تو طاق عدد میں کھجوریں کھا لیں یا پھر اور کوئی میٹھی چیز بھی کھا سکتے ہیں۔
عید گاہ سواری پر جانے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اگرپیدل چل سکتے ہوں تو پیدل جانا افضل ہے۔ راستے میں ”الله اکبر، الله اکبر،لا الہ الا الله والله اکبر، الله اکبر، وللہ الحمد“ پڑھنا چاہئے ،جہاں عید کی نماز پڑھی جائے وہاں نماز سے پہلے اور بعد کوئی اور نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا نماز عید نہیں پڑھ سکتا، اس لیے کہ جماعت اس میں شرط ہے اور دوسرے عید گاہ جانا سنت موکدہ ہے۔
ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے واپس آئیں۔ اس طرح مختلف راستے آپ کی عبادتوں کے گواہ بنتے جائیں گے۔لیکن آنے جانے میں کسی کو تکلیف نہ ہو،نعرے بازی شور مچانا جائز نہیں،اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے،کیونکہ اسلام سلامتی والا مذہب ہے،اور دین فطرت ہے،عید الفطر کا پیغام بھی یہی ہے کہ یہ انسان کو اس کی فطرت کی طرف توجہ دلاتا ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله
اللہ تعالیٰ کی فطرت وہ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔
فطرت سے مراد اسلام ہے ‘‘جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات پر پورے طریقہ پر عمل کرتا ہو
مذب اسلام جس کو سلامتی والا مذہب کہا جاتا ہے،اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (حرم مکہ) کو گہوارئہ امن (امن کی جگہ) قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
   من دخلہ کان آمنا
’’اس کے سایہ میں داخل ہونے والا ہر شخص صاحب امان ہوگا۔“
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
   ”اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو“
ایک جگہ فرمایا:
اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
 احادیث میں بھی زمین میں امن وامان برقرار رکھنے کے سلسلے میں متعدد ہدایات موجود ہیں مثلاً:
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔“
  ”ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے، نیز بخل وتنگ نظری سے بچو اس چیز نے تم سے پہلے بہتوں کو ہلاک کیاہے اسی مرض نے ان کو خونریزی اورحرام کو حلال جاننے پر آمادہ کیا۔(“مسلم)
بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ کہ اللہ کی قسم! مومن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم مومن نہیں ہوسکتا، کسی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کون مومن نہیں ہوسکتا؟ فرمایا کہ جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔“
 تو معلوم ہوااسلام کا نام ہی امن وسلامتی کاہے۔ اسلام تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام کی اولاد سمجھتا ہے۔ لہذا عید کے موقع پر غیر مسلم بھائیوں کو بھی اپنے گھر پر مدعو کرکے انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چاہئے۔ انہیں روزہ کے مقصد اور عید الفطر کے مقصد سے روشناس کرانا چاہئے“۔
 مذہب اسلام تمام مسلمانوں کو سمجھ بوجھ اور علم وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں دنیا کو یہ باور کرانا چاہئے کہ اسلام امن، سلامتی، دوستی، مفاہمت اوربھائی چارگی پر یقین رکھنے والا مذہب ہے جو انسانی حقوق کی پاسداری کو دینی تعلیمات کا ایک لازمی  حصہ خیال کرتاہے۔مسلم معاشرے میں غیر مسلموں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور ان کے حقوق کی پاسداری مذہبی فریضے کی حیثیت رکھتی ہے۔بدقسمتی سے اسلام کے ان زرّیں اصولوں کے بارے میں مغرب کی بے خبری کی وجہ سے عمومی طورپر ایک منفی تاثر پیدا کردیاگیاہے۔ ہمیں اس تاثر خیال کو زائل کرنے کے لئے کچھ ٹھوس تدابیر کرنی ہوں گی تاکہ مسلم معاشرے کی حقیقی تصویر نمایاں ہوسکے۔
عید ین کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس طرح نیت کرے۔
نیت صرف دل کے ارادے کا نام ہے ۔اگر صرف اتنی ہی نیت کرلی جائے کہ میں اس امام کے پیچھے عید کیا نماز ادا کررہا ہوں کافی ہے
”میں دو رکعت واجب نماز عید کی مع زائدچھ واجب تکبیروں کے ساتھ اس امام کے پیچھے ادا کرتا ہوں ۔“
عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں ہر اس شخص پر واجب ہیں جس پر جمعہ فرض ہے۔ عیدین دوگانہ یعنی دو رکعتوں والی نماز ہے۔ نمازِ عیدین کا طریقہ وہی ہے جو دیگر نمازوں کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نماز عیدین میں چھ زائد تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھا کر تین تکبیریں کہے، تیسری تکبیر کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لے(عند الاحناف)، مقتدی بھی ایسا ہی کریں۔ پھر امام تعوذ و تسمیہ کے بعد جہراً قرات کرے۔ قرات کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کیے جائیں۔ پھر دوسری رکعت شروع ہوگی۔ امام قرات کرے، قرات کے بعد تین مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر تکبیریں کہے، مقتدی بھی امام کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر رکوع کرے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں، اس طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔ اس کے بعد اپنی جگہ بیٹھے رہیں اور خطبہ سنیں بغیر خطبہ سنے جانا نہیں چاہئے۔ نماز عیدین کا وقت آفتاب کے بلند ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے تک ہے۔
شوال کے چھے روزے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے او راس کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھے اس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔
عیدین میں گلے ملنے کا شرعی حکم:
آج ہمارے معاشرے میں کم قسمتی سے، بوجہ دین سے دوری ، عید کے ایام میں ایسی رسوم شامل ہو گئی ہیں جن کا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں اور عمومی طور پر مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ انہیں عید کے تہوار کا حصہ اور دین سمجھ کر انجام دے رہا ہے،ان رسوم میں سے ایک رسم عید کے دن ”مصافحہ ومعانقہ کرنا “ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات واضح رہے کہ مصافحہ یا معانقہ کرنے (یعنی دونوں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے )میں حضور صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاطریقہ یہ تھاکہ جب آپس میں ملاقات ہوتی تو پہلے سنت کے مطابق سلام کرتے اور سلام کے بعد مصافحہ کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو معانقہ کرتے(اس سے ہٹ کر مصافحہ ومعانقہ کا کوئی خاص دن مثلاً: کسی نماز کے بعد یا عید کا موقع مقرر نہ تھا )۔
اس لئے خاص عید ین کی تخصیص کرتے ہوئے مصافحہ اور معانقہ کرنا شرعاً ثابت نہیں ، نہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں اور نہ ہی خیر القرون کے زمانے میں، لہٰذا اس طریقے کو ترک کرنے اور دوسروں کو حکمت و بصیرت کے ساتھ سمجھا نے کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی شرعی دلیل سے اس کا ثبوت نہیں اور فقہائے کرام واکابر عظام رحمہم اللہ نے اسی پہلو سے اس کو بدعت اور ناجائز قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید فرما ئی ہے، تاہم اس سلسلے میں کسی قسم کے فتنہ فسادو انتشار سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے،لہٰذا اگر کوئی اس موقع پر ملنے پر ہی بضد ہو تو اُس وقت اس سے بغیر سنت کی نیت کیے، گلے مل لیں ،لیکن ہیئتِ میں کچھ تبدیلی کرلیں ، یعنی تین کے بجائے ایک دفعہ ملنے پر اکتفا کریں اور پھر کسی دوسرے موقعہ پر پیار و محبت سے اس کو سمجھاکر مسئلہ واضح کر دیں۔
آخیر میں میری دعاء ہےکہ اللہ تعالی اس عید سعید کے موقعہ پر تمام عالم میں بھائی چارگی اور محبت کا ماحول پیدا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.