Wednesday, 27 January 2016

19:19

بھگوان انسان کے روپ میں

             
مفتی عابدالرحمٰن بجنوری
رات کے ساڑھے بارہ بجے ہیں میں ہڑبڑا کر اٹھاچاروں طرف نظر دوڑائی ، سب کچھ پر سکون پایا، گھر کے مکین سورہے تھے ،نیند میری آنکھوں سے غائب ہوچکی تھی ایک انجان سی فکر اور بےچینی تھی ایک کرب سا اندر محسوس کررہاتھا۔کمرے سے باہر نکلا باہر بھی سناٹا چھایا ہوا تھا باہر سڑک کی جانب جھانکا تو پڑوسی کے گھر سے گائے کے بولنے کی آواز آئی ۔آواز سنتے ہی میرا دماغ بھی جاگ گیاایک خوف سا ذہن پر طاری ہوگیا۔آنکھوں کے سامنے ملک کا سیکولرزم اور جمہوریت کےتار بکھرتے نظر آنے لگے۔دماغ سوچ و فکر میں کھوتا چلا گیا نیند تو فرار ہوہی چکی تھی، لہٰذاقلم کو ہاتھ میں لیااور آتے ہوئے خیالات کو کاغذ پر بکھیرنے لگا۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو بھائی چارگی اور رواداری کا درس دیتا ہے،اور ہر اس عمل سے روکتا ہے جس سے انسان کو تکلیف پہونچے،اس میں بہت تفصیل ہے زیادہ تفصیل میں نہ جاکرمختصراً یہ کہ ا سلام نے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ کسی کے دیوی دیوتاؤں کو بر انہ کہیںیا ان کی توہین نہ کریں جن میں دیوی دیوتا،بھگوان سے لیکر مختلف قسم کے جانور بھی شامل ہیں جن کو غیر مسلم پوجنئے سمجھتے ہیں یا پوجا کرتے ہیں۔انہی میں سے ایک گائے بھی ہے۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔نہ صر ف پوجا کرتے ہیں بلکہ اس کی دیگر چیزوں کا بھی احترام کرتے ہیں اور پَوتر سمجھتے ہیں۔ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا کہ یہ صحیح ہے یا غلط یہ عقیدت اور عقائد کا معاملہ ہے،ہمیں اس بحث میں بھی نہیں پڑنا ہے کہ ماضی بعید میں ہندوؤں کے یہاں گائے کا کیا مقام تھا ،جیسا کہ حالیہ دونوں میں کچھ ہندو حضرات نے بیانات دئے ہیں وہ تاریخی اعتبار سے صحیح ہیں یا نہیں ہمیں اس تفصیل میں نہیں جانایہ ہمارا موضوع بحث نہیں۔
یہ ان لوگوں کا عمل ہے میں اس طرح نہیں سوچتامیرے نزدیک پہلے زمانہ میں جو ہندو راجہ مہاراجہ یا عوام گائے کا گوشت کھاتے تھے یا اس کو ذبح کرتے تھے،وہ زیادہ ایڈوانس نہیں تھے،وہ گائے کو صرف جانور ہی سمجھتے تھے۔لیکن جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیالوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے گئے اور بالآخر اب آکریہ بات عیاں ہوئی کہ گائے بہت محترم جانور ہے اس کی پوجا ہونی چاہئے نہ کہ کھانا چاہئے۔قدیم وجدید کا فرق ہر جگہ ہے مسلمانوں میں بھی ہے۔مسلمان بھی مختلف دور سے گزرتا ہوا دو حصوں میں تقسیم ہوگیا،’’اولڈمسلمان‘‘،جس کو قدامت پسند یا شدت پسند کہا جاتا ہے۔اور دوسرا ’’موڈرن مسلمان‘‘ یعنی جدید مسلمان ترقی یافتہ مسلمان۔قدیم مسلمان داڑھی رکھتے تھے،لیکن موڈرن مسلمانوں پر یہ بات عیاں ہوئی کہ داڑھی ترقی میں رکاوٹ ہے،لہٰذا داڑھی میں برائیا ں نظر آنے لگی،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے داڑھی رکھنا چھوڑ دی،یہی حال تقریباً نماز کا ہے۔قرآن پڑھنا اور سیکھنا چھوڑدیا گیا ہے دینی تعلیم پستی کی علامت بنتی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ قدامت پسند یا شدت پسند یا مذہبی مسلمان، ان موڈرن مسلمانوں کا ،یا موڈرن مسلمان مذہبی مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردیں۔اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی سب کو ایک دن اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے فقط۔
لہٰذا اب اگر ہندوؤں کو گائے کی اچھائیاں معلوم ہوئیں تو ان کو ضرور اس کا احترام کرنا چاہئے اس کی پوجا کرنی چاہیے،اور دوسروں کو بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔بلکہ میں تویہ کہتا ہوں کہ ہندوؤں کو صرف گائے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیےبلکہ ان کو اپنی تمام مذہبی رسومات اور مذہبی باتوں اور چیزوں کا احترام کرنا چاہئے۔اور اپنے دیوی دیوتاؤں ،اور بھگوانوں کی ہر ہر حرکت کو محفوظ کرنا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہیے ۔جس طرح مسلمان اور دیگر مذاہب والے یاسکھ کمیونٹی کرتی ہے۔مثلاً مسلمان اس کا غذ کا احترام کرتے ہے جس پر قرآن شریف یا مذہبی باتیں لکھی ہوتی ہیں،اخبارات کے ان کالموں اور صفحوں کا احترام کرتے ہیں جن پر اسلامی معلومات ہوتی ہیں یا مذہبی باتیں ہوتی ہیں۔ایسی جگہوںایک نوٹ لکھا ہوتا ہے کہ اس حصہ کا حترام کیجئے ردی نہ بنائیں۔احترام کی انتہا یہ ہے کہ مسلمان اردو اخبار کو ردی میں نہیں بیچتے بلکہ اس کو محفوظ رکھتے ہیں یا احترام کے ساتھ اس کو کہیں رکھ دیتے ہیں یا دریا برد کردیتے ہیں ۔اور یہ اس لئے نہیں کرتے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے،حقیقت میں ایسا نہیں ہے مسلمان اس زبان کا اس لئے احترام کرتے ہیںکیوں کہ یہ مادروطن کی زبان ہے۔ اس زبان نے اسی ملک میں جنم لیاہےاور یہیں پلی بڑھی ہے ،یہی نہیں بلکہ ملک کی آزادی میں اس زبان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
مسلمانوں کی طرح ہندوؤں کو بھی چاہئے کہ وہ ہندی اخبارات کا احترام کریں کیوں کہ ہندی دیوی دیوتاؤں کی زبان تو ہے ہی ان ہندی اخبارات میں ان کے دھرم کی باتیں بھی ہوتی ہیںاور دیوی دیوتاؤں کی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔لہٰذا ان اخبارات کو ردی نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی بیٹھنے کے لئے سیٹوں کو صاف کرنا چاہیے اور نہ ان سے گاڑیا ں صاف کرنی چاہئیں۔اسی طرح ہندوبھائیوں کو ہراس چیز کا احترام کرناچاہیےجن کا تعلق دیوی دیوتاؤں سے ہو یادھرم سے ہو۔مثلاً پہاڑ کہ ان کو کانٹ چھانٹ کر دیوی دیوتاؤ کاروپ دیا جاتا ہے لہٰذا ان پہاڑوں سے پتھروں کو کاٹ کر گھروں کے فرش اور لیٹرین وغیرہ میں نہیں لگا چاہیے۔
اسی طرح ہندوؤں کے گھر میں مٹکے یا گھڑے ہونے چاہئےاور ان کی حفاظت کرنی چاہئے کیوں کہ اس میں سے شری رام جی کی بیوی سیتا جی پرکٹ ہوئی تھیں۔اسی طرح کی اور بہت سی دیگر باتیںہیں ان تمام باتوں کو ہندو بھائیوں کو اپنی عملی زندگی میں لانا چاہیے۔
ہندو دھرم میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ انسان بھگوان کا روپ ہوتا ہے۔اور بھگوان میں یہ شکتی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی چیز کا روپ دھار لے یا ظاہر ہوجائے اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہندوؤں کے گھر میں ہی ظاہر ہو وہ مسلمان کے روپ میں بھی آسکتا ہے وہ سکھوں کے روپ میں بھی آسکتا ہے وہ جانور کے روپ میں بھی آسکتا ہے ،وہ شری گنیش بھی ہوسکتا ہے وہ گائے کے روپ میں بھی آسکتا ہے ۔وہ اگنی کے روپ میں بھی آسکتا ہے،ناگ کے روپ میں بھی آسکتا ہے۔بہر حال مختلف روپ میں آسکتا ہے۔
جب یہ بات طے شدہ ہے کہ انسان بھگوان کا روپ ہے تو پھر کیا وجہ ہےکہ بھگوان اگر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے روپ میںآجائے تو پھر تو نفرت کس بات کی ؟بھگوان تو بھگوان ہی ہے چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہوقابل احترام ہے۔لیکن آج کل جس طرح سے ملک کے امن کو ختم کیا جارہا ہے،اور انسان انسان کو ہی قتل کررہا ہے گویا بھگوان بھگوان کو ہی قتل کررہا ہے یہ کہاں تک مناسب ہے۔بھگوان اگر ناگ دیوتا کے روپ میں ہواور کسی کو کاٹ لے تو اس کومارا نہ جائےبلکہ دودھ پلا کرنمشکار کرکے جانے دیا جائے۔اسی طرح اگنی دیوتا کا معاملہ ہےاگر کسی کے گھر میں اگنی جل رہی ہے تو وہ جلتی رہنی چاہیے۔بلکہ گھروں سے نکال کر پورے میں پھیلا دینی چاہیےجیسا کہ کچھ ماڈرن ملک دشمن قوم دشمن کررہے ہیںگائے کے نام پر پورے ملک میں اگنی دیوتا کا راج ہوگیا ہے۔اور یہ آگ تب تک جلتی رہے گی جب تک کہ ملک بھسم نہ ہوجائے ۔پھر ’’نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری‘‘۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.