Saturday 23 March 2013

23:18
گزشتہ سے پیوستہ :۵
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دلائل کی روشنی میں اکثرحضرات فقہاء کرام نے منصب وعہدہ کے مطالبہ کے سلسلے میں احتیاط واحتیاج کے پہلو کو مد نظر رکھا ہے چنان چہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر امامت وقضاء کے عہدے کا طالب شخص نا اہل اور غیر مستحق ہو تو اس صورت میں طلب عہدہ مطلقاممنوع ہے اسی طرح اگر طلب منصب حب مال اور اقتدار سلطنت کی ہوس اور مال ودولت کی لالچ میں ہو تو اس وقت بھی عہدہ کا طلب مطلقا ممنوع ہے لیکن اگر لوگوں کی اصلاح مقصود ہو اور عہدہ قبول کرکے عدل وانصاف کو قائم کرنے کا عزم وحوصلہ ہو تو اس صورت میں طلب عہدہ ومنصب مذموم نہیں ہے بلکہ مباح ہے اس سےیہ بات واضح ہوگئی کہ ایسے شخص کا الیکشن میں نمائندہ بن کر کھڑا ہونے کا حکم بدرجہ اولیٰ معلوم کیا جاسکتاہے ۔
شرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے اداروں کے رکن بننے کا حکم شرعی
ہر وہ ادارہ یا مرکز یا تنظیم جہاں اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا ان کے مقاصد اور منشور میں اسلامی قانون کی تضحیک ہو یا ان اداروں کے قوانین وضوابط اسلامی قانون سے متصادم ہوں ،خواہ اس طرح کے ادارے وتنظیم ممالک اسلامیہ میں ہوں یا غیر اسلامیہ میں اور اس ادارے کے منشور میں یہ بات شامل ہو کہ اس تنظیم یا ادارے کےہر فرد یا رکن یا ملازم پر ہر حال میں اس کی پاسداری اور لحاظ کرنا لازم ہوگا ،۔ تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں ایسے اسلام مخالف قانون ساز اداروں میں ملازمت کرنا یا ان کا رکن یا ممبر بننایا ان کی مجالس میں شرکت کرنا در پردہ ان اداروں کو تقویت اور مضبوطی فراہم کرنا شمارہوگااور ان کا یہ عمل تعاون علی الاثم میں شمار ہوگا جو شرعی نقطہ سے جائز نہیں ، لہٰذاان میں شرکت کرنا جائز نہیں۔
( عزیز المفتی غیر مطبوعہ از مفتی عزیز الرحمٰن بجنوریؒ وھٰکذا قال مفتی کفایت اللہ ؒ فی کفایت المفتی ج:۹ص:۲۵۶)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]

اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے
امام احمد بن حنبلؒ صحیح اسناد کے ساتھ سیدنا ابو موسی اشعریؓ سے روایت فرماتے
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ : قُلْتُ لِعُمَرَ ’’ إنَّ لِي كَاتِبًا نَصْرَانِيًّا قَالَ ما لَكَ قَاتَلَكَ اللَّهُ ! أَمَا سَمِعْت َاللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ) (المائدة ) أَلا اتَّخَذْتَ حَنِيفِيًّا (يعني مسلماً) قَالَ قُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِي كِتَابَتُهُ وَلَهُ دِينُهُ قَالَ لا أُكْرِمُهُمْ إذْ أَهَانَهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُعِزُّهُمْ إذْ أَذَلَّهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُدْنِيهِمْ إذْ أَقْصَاهُمْ اللَّهُ‘‘
ترجمہ: ابو موسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ: (میں نے سیدنا عمر بن خطاب سے کہا: میرا ایک کاتب نصرانی ہے۔ انہوں نے غصہ میں کہا تیرا بیڑہ غرق ہو تو نے ایسا کیوں کیا! کیا تو نے سنا نہیں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
(اے ایمان والو! یہود ونصاری کو اپنے دوست نہ بناؤ یہ تو صرف ایک دوسرے ہی کہ دوست ہیں)
کیوں نہیں تو نے ایک مسلمان کو رکھ لیا ہوتا۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین مجھے تو محض اس کی کتابت سے مطلب ہے، وہ جانے اور اس کا دین۔ آپ نے فرمایا: میں تو ان کا اکرام نہیں کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ان کی اہانت فرمائی ہے۔اور نہ ان کی عزت کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی انہیں ذلیل ورسواء کیا ہے، اور نہ انہیں اپنے سے قریب کرو ں گا جبکہ اللہ تعالی ہی نے انہیں دھتکار دیا ہے)۔
ایک اور حدیث میں جس کو اوس بن شرجیل نے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
عن أوس بن شرحبیل أنہ سمع رسول اللہ ﷺ یقول من مشی مع ظالم لیقویہ وہو یعلم أنہ ظالم فقد خرج من 
الاسلام۔ (مشکوٰۃص۴۳۶ ج۶ص۱۲۲،المعجم الکبیر ج۲ص۲۷۱)
حضرت اوس بن شرحبیل ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول کریم ﷺسے سناکہ آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے کہ جو شخص کسی ظالم کو تقویت پہنچانے کے لئے اس کے ساتھ چلے گا جب کہ اس کو معلوم ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام کے کمال سے نکل گیا ۔
البتہ اگر کوئی ایسا ادارہ ہے کہ منشور یا ان کا مقصد اسلام کو اور اسلامی تعلیمات کو نقصان پہنچانا ہو اور وہاں کے ملازمین و ممبران کو اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی رخصت ہو ، یا کوئی فرد ان اداروں میں اس نیت اور مقصد سے شرکت کرتا ہے کہ وہ گفت وشنید کے بعد ان کی اصلاح کرسکتا ہے ،یا اس نیت سے شرکت کرتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ غیر اسلامی تنظیمیں اسلام یا مسلمان مخالف تو کوئی کا م نہیں کرہی ہیں ،اگر یہ اغراض پیش نظر ہیں تو ان اداروں میں شرکت کی جا سکتی ہے ۔ اس شر ط کے ساتھ کہ وہ خود ا ن کے مقاصد میں معاون اور ملوث نہ ہو ہوجائے۔
حدیث پاک میں ارشاد ہے،حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ الناس إذارأو الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أوشک أن یعمہم اللہ بعقاب منہ‘‘
(کنز العمال،ج۳ص۷۱ :مسنداحمد بن حنبل،ج۱ص۲۰۸ا:سنن ابی داؤدج۴ص۲۱۴)
ترجمہ: اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیںتو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمادے۔
لہٰذا ظلم وزیادتی اور خلاف شریعت قانون کو روکنے کی نیت سے ایسے ادارے کی رکنیت اختیار کرنا اس کی شرعاً گنجائش معلو م پڑتی ہے ، بصورت دیگراگر یہ معلوم ہو کہ اس ادارے کی رکنیت اور شمولیت اختیا ر کرنے میںوہاں کے قوانین و ضوابط میں کوئی تبدیلی نہیںہوگی بلکہ ادارے کے قوانین ہی پر کار بند رہنا پڑ ے گا اور اس کے ما تحت رہ کر کام کرنا ہوگا اور وہا ں اصول شریعت کے خلاف بھی کام کرنا پڑے گا تو اس صورت حال میں ایسے ادارے اور جماعت وپارٹی کی رکنیت وشمولیت اختیار کرنا جائز نہیں ہے ۔
حلف وفاداری اور شریعت:
ہر ملک اور مخصوص اداروں یا سیاسی جماعتوں کا ان کا اپنا آئین اور دستور ہوتا ہے جس میں شمولیت کے لئے حلف وفاداری لیا جا تا ہے ،کچھ جگہوں میں تو شمولیت کرنے والے ملازم ہوں یا ممبر ان کو اپنے مذہب کے مطابق ہی حلف برداری کےلئے کہا جاتا ہے یہاں تک تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کے برعکس اگر کسی ادارہ یا جماعت وپارٹی کا دستور ومنشور اور اصول قانون شریعت اسلامی اور قرآن وحدیث کے اصول کے با لکل خلاف ہو،اور اس میں شمولیت ورکنیت اختیار کرنے والوں کے لیے خلاف شریعت قانون سے بھی وفاداری کا عہدوپیمان کرنا پڑے اور خلاف شریعت دفعات سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑے ، توایک مسلمان کے لئے اس طرح کے دفعات وقوانین سے وفاداری کا حلف لینا اور اس عہد وپیمان کرنا کہ میں اس ادارے کے تمام قوانین کا پاس ولحاظ کروںگا (اگرچہ وہ خلاف شرع ہی کیوںنہ ہوں) ،جائز نہیں ۔
اس لئےکہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاہے:
عن النواس بن سمعان قال قال رسول اللہ ﷺ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔
(شر ح السنۃ :ج۱۰ ص۴۴: المعجم الکبیر :ج۱۸ ص۱۷۰: ،مصنف بن ابی شیبہ: ج۱۲ص۵۴)

حضرت نواس بن سمعان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس مسئلہ میں خالق اللہ رب العزت کی نا فرمانی لازم آتی ہو اس میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ۔
’’ عن علی قال قال رسول اللہﷺ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ إنما الطاعۃ فی المعروف‘‘
(بخاری شریف :باب ما جاء فی اجازۃ خبرالواحد الصدوق،مسلم: کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ: ج۲ رقم ۴۸۷۱)

حضرت علی ؓ سے روایت کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ معصیت اور گناہ کے کام میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے اطاعت وفرماں بر داری صرف نیک کاموں میں جائز ہے ۔
خلاصہ کلام : مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ امیروحاکم کی بات کو سننا اوراطاعت کرنا اسی طرح کسی ادارے اور جماعت وپارٹی کے قوانین واصول کے ساتھ وفاداری اس وقت تک جائز ہے ،جب تک وہ قرآن وحدیث کے مخالف نہ ہوں ،اگر ادارہ یا جماعت وپارٹی کا کوئی حکم وقانون شریعت کی حدود سے متجاوز ہو اور اس پر عمل پیرا ہونے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور عدم اطاعت لازم آتی ہو، تو اس صورت میں اس کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا یا اس کے لیے حلف اٹھانا کسی کلمہ گو شخص کے لئے جائز نہیں ۔
بائبل اور انجیل پر حلف لینے کا شرعی حکم:
حلف کہتے ہیں کسی کتاب محترم کو ہاتھ میں لیکرکسی حالف کا یہ اظہاراور اعلان کرنا،کہ میں جو کچھ اعلان اور اقرار کررہا ہوں وہ با لکل صحیح ہے ،اور یہ کتاب اس بات کی سند ہےکہ میں اپنے قول و فعل میں سچا ہوں۔اب چونکہ حالف کے اعتقاد کے مطابق یہ کتاب مکرم اور قابل احترام ہے اور وہ اس کا دل کی گہرائی سے قابل تعظیم اور لائق احترام ہونا تسلیم کرتاہے اس لئے اس کا تعلق ایمان اور عقائد ے جڑ گیااور روئے زمین پر اس وقت کلام اللہ (قرآن پاک )کے علاوہ کوئی کتاب برحق نہیں ہے، اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ زمانے میں جو تورات وانجیل کے نسخے ہیں وہ تحریف شدہ ہیں گویا وہ کتاب اللہ نہیں بلکہ کتاب الناس ہیں۔ اور اس وقت کو ئی ایک نسخہ بھی دنیا میں بالکل اصلی حالت میں موجود نہیں ہے بلکہ تمام نسخے افتراء علی اللہ اور تحریف وتغیر سے پر ہیں،اس لئے کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کتابوں کو ہاتھ میں لے کر قسم کھائے۔
اور ان کتابوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کا مطلب ہے ان کا منجانب اللہ ہونے اور ان کے برحق ہونے کی تصدیق کرنیکا،جو جائز نہیں ،البتہ اگر کوئی مسلمان طوعاً وکرہاًاس پر مجبور ہو،اور اس کے بغیر حصول انصاف اور ظلم وستم سے بچنا نا ممکن ہو تو بادل نخواستہ کر اہت کے ساتھ اس کی تعظیم وتوقیر اور احترام واکرام کا اعتقاد دل میں لئے بغیر دفع مضرت کی نیت سے ہاتھ رکھ کر حلف لے سکتا ہے۔ اور جس کی توثیق وتصدیق واجازت رابطہ عالم اسلامی کے زیر نگرانی اسلامک فقہ اکیڈمی کی پانچویں سمینار منعقدہ ۸-۱۶ربیع الثانی ۱۴۰۲؁ھ میں ہوئی اور علماء امت جن نکات پر متفق ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے ۔
إذا کان القضاء فی بلد ما حکمہ غیر اسلامی یوجب علی من توجہت علیہ الیمین وضع یدہ علی التوراۃ او لإنجیل أو کلیہما فعلی المسلم أن یطلب من المحکمۃ وضع یدہ علی القرآن فإن لم یستجب لطلبہ یعتبر مکرہا ولابأس علیہ أن یضع یدہ علیہما أوعلی أحدہما دون أن ینوی بذالک تعظیما۔
(قرارات مجلس المجمع الفقہی الاسلامی ۱۴۰۲ھ؁/۸۵بحوالہ جدید فقہی مسائل ج۱ص۴۷۰)
اگر کسی غیر اسلامی مملکت کی عدالت قسم لینے والے کے لیے توریت یاا نجیل یا ان دونوں پر ہاتھ رکھنا ضروری قراردیتی ہو تو مسلمانوں کو چا ہیے کہ وہ عدالت سے قرآن کریم پر ہاتھ رکھنے کا مطالبہ کرے ،اگر اس کا مطالبہ نہ مانا جائے تو ایسے کو محبور سمجھا جائے گا اور دونوں یا کسی ایک پر تعظیم کی نیت کے بغیر ہاتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ (اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے فیصلے ص۱۲۰)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔       

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.