Saturday 23 March 2013

23:22
گزشتہ سے پیوستہ:۶
مسلمانوں کا مسلم مخالف پارٹیوں میں شمولیت کرنا :
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک ایسی جمہوریت کہ جہاں’’ ہندو‘‘ اکثریت ہے ،اور جب سے یہ ملک آزاد ہوا ہے اس وقت سے یہاں کی اکثریت ہندو راشٹر قائم کرنے کی فکر میں رہتی ہے کچھ کھل کر اس اظہار کرتے ہیں اور کچھ کا خفیہ ایجنڈہ ہو تاہے ،تو کچھ نے سیکولر کا مکھوٹا لگا رکھا ہے تا کہ مسلم ووٹ حاصل کیا جاسکے، لیکن درپردہ ہیں سب مسلم دشمن۔ اب رہی وہ پارٹیاں جن کی مسلم دشمنی بالکل عیاں ہےاور ان کے آئین ودستور ودفعات میں بھی درج ہے، ان کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر قائم ہے، اور ان کے یہاں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور ان کی عائلی اور خارجی زندگی کی صیانت وحفاظت کی کوئی ضمانت اور گارنٹی نہیں ہے اور نہ ان کے اصول میں ہے، توایسی سیاسی جماعتوںاور پارٹیوں میں مسلمانوں کی شرکت قطعی مفید اور کار آمد نہیں ، اورنہ ہی کوئی مسلمان اس میں شریک وشمولیت اختیار کرکے ان کے اصول وقوانین کی اصلاح کرسکتاہے اور نہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس طرح کی پارٹیوں اور جماعتوں میں مسلمانوں کی شرکت اور شمولیت کرنا اور ان کی جانب سے الیکشن میں انتخاب لڑنا باعث گناہ عظیم اور حرام ہوگا اور’’ تعاون علی الاثم والعدوان ‘‘کے متراف ہوگا اور مسلمانوں کی دشمنی میں کافروں کے ساتھ برابر کے شریک ہوگا۔ (کفایت المفتی ج۹ص۲۵۶)
حدیث شریف میں ہے:
عن ابن مسعود عن النبی ﷺ قال من رضی عمل قوم فہو منہم ومن کثر سواد قوم فہو منہم
(تفسیر رازی سورۃ المائدہ ج۱۲، ص۵۴التفسیر الکبیر ج۱۲ص۵۴، سبل السلام ج۷ص۱۰۷)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جو کوئی کسی قوم کے عمل سے راضی ہے وہ اسی میں سے ہے اور جو کوئی کسی قوم کی جماعت کو زیادہ کرے وہ بھی اسی میں سے ہے ۔
لیکن اگر کوئی شخص اس نیت سے ان اسلام مخالف پارٹیوں میں شریک ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہوکر اس کے ایجنڈے اور اصول کو بدلنے کی سعی وکوشش کریگا تو ظاہر ہے کہ اس کی حسن نیت کے مطابق اس میں شمولیت کی اجازت بوقت ضرورت دی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ خود اس میں شریک ہوکر اسی کا آلہ کار بن کر نہ رہ جائے اور اس کی حیثیت تماش بین کی نہ رہ جائے ۔
مسند احمد اور معجم کبیر وغیرہ میں حضرت سہل بن حنیف ؓسے روایت ہے کہ رسول اکر مؐ نے ارشاد فرمایا :
من أذل عندہ مؤمن فلم ینصرہ ویقدرعلی أن ینصرہ أذلہ اللہ علی رؤس الأشہاد یوم القیامۃ۔
(المعجم الکبیر ج۶ص۷۳:شعب الإیمان ،ج۶ص۱۱۰:مسند احمد ، ج۲۵ص۳۶۱)

جس شخص کے سامنے کسی مؤمن کو ذلیل ورسوا کیا جارہا ہو اور وہ اس کی مدد پر قدرت رکھنے کے باوجود مددنہ کرسکے ،تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن (میدان محشر میں) رسوا وذلیل کرے گا ۔
اس حدیث کی رو سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اسلام مخالف ایجنڈے کے بدلنے پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ،اور وہ اس مسلم مخالف واسلام دشمنی پر بنائی گئی پارٹی میں اصلاح کی نیت سے شریک ہوتا ہے تو اس کی گنجائش ہے ،لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو ،تنہا مسلم کچھ بھی نہیں کرسکتا ،اس لئے تنہا مسلمان کا ایسی پارٹی شریک ہوناجائز نہیں۔اس کے لئےعدم شرکت ہی زیادہ افضل واولیٰ ہے۔
سیکولر پارٹیوں کی طرف سے انتخاب لڑنا:
اوپر واضح کیا جا چکا ہےکہ ہندوستان ایک ہندو اکثریت والا ملک ہے ،اس لئے زیادہ تر سیاسی پارٹیاں غیر مسلموں کی ہی ہیں اس لئے حکومت بھی ان ہی لوگوں کی بنتی ہے اور پھر جو بھی حکومت تشکیل پاتی ہے وہ اکثریت کا خیال رکھتی ہے ،ان حالالت میں کچھ پارٹیاں ایسی وجود میں میں آئیں جو سیکولر ہیں اور مسلم مفاد کا خیال اکثریت کے مقابلہ میں زیادہ رکھتی ہیں،اور مسلم مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہیں ،ان پارٹیوں کی بنیاد مسلم دشمنی پر نہیں ہوتی اور دستور اساسی مسلم نواز ہوتا ہے،اس سب کے باوجود ان کی مسلم دشمنی کے سبب ان کے بعض جزوی قانون مسلم مفادات کے مغائر ہوتے ہیں کھلم کھلا اسلام دشمنی پر مبنی پارٹیوں کے مقابلے میں یہ پارٹیاں اہون ہوتی ہیں ۔
فقہ کا اصول ہے ،،إذا ابتلیت ببلیتین فاختر أہونہما، ’’
اہون البلیتین کا مطلب یہ ہے کہ دو مصیبتوں میں سے کم تر مصیبت کو اختیار کر لیا جائے اس اصول کے پیش نظر اس میں مسلمانوں کے لیے شرکت کرنا جائز ہوگا ۔اور ان کی طرف سے انتخاب لڑ نااور ان کی حکومت ریاست اور وزارت میں شامل ہونا جائز ہوگا تاکہ جب کوئی قانون یا بل مسلمانوں کے خلاف پاس ہو تو وہ سینہ سپر ہوکر قانون کے دائرہ میں رہ کر اس کی مخالفت کر سکیں۔
اور اگر مسلما ن کلی طور پر ان سیاسی پارٹیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیںتو یہ مسلمانوں کے حق میں زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے ، اس صورت میں غیروں کو زیادہ فائدہ ہوگا ۔ اوراگر مسلمان سیاست میں شریک ہوتے ہیں تو ان مسلم مخالف جماعتوں کو مسلمانوں کے خلاف کام کرنےکے مواقع کم فراہم ہوں گے ۔ اسلئے مسلمانوں کےحق میں یہ بات زیادہ فائدہ مند ہوگی کہ ایوان بالا میں حق کی آواز بلند کرنے اور مسلمانوں کی آواز کو ایوان حکومت اور زیر اقتدارحکومت کے ارباب تک پہنچانے اور اسلام مخالف اور مسلم دشمنی پر مبنی قانون پر قدغن لگا نے کے لئے سیکولر جماعت میں شرکت مسلمانوں کےلئے وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش ہے ۔
ہندوستان میں خالص مسلم سیاسی جماعت بنانا:
جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ہندوستان ہندو اکثریت والا ملک ہے ،اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جہاں مختلف اور متعدد سیاسی سیکولر اور غیر سیکو لر پارٹیاں اور جماعتیں موجود ہیں ،جن کی قیادت وسیادت غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہے، اور اس ملک میں مسلمان نہایت اقلیت میں ہیں،اور ان کا ملک میں کوئی خاص اثر رسوخ بھی نہیں ہے۔اور مسلمان آپس میں متفق بھی نہیںہیںمسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے ، ہر ایک کے اپنے جدا گانہ افکار اور نظریات ہیں ،مسلمانوں کی کوئی اجتماعیت ،اتفاقیت اور شیرازہ بندی نہیںہے، ایسی صورت میں خالص مسلم سیاسی اور اسلامی پارٹی کا قیام موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے نا مناسب اور غیر موزوں ہوگا ،اس لیے کہ جب کوئی نمائندہ انتخابات میں مسلم پارٹی اوراسلامی پارٹی کی طرف سے امیدوار بن کر کھڑ ا ہوتا ہے تو اس کے با لمقابل کئی مسلم امیدوار میدان میں آجاتے ہیں جس کا نتیجہ شکست کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، علاوہ ازیں جب کوئی مسلم پارٹی وجود میں آتی ہے تو دیکھنے میں آیا کہ تمام فرقہ پرست تنظیمیں متحد ہو جاتی ہیں ۔اس سے فائدہ اٹھاکر غیر مسلموں کے ووٹوں کو یکجا کرلیتی ہیں۔اور اسکی وجہ سے مسلم مخالف ذہنیت کو تقویت ملتی ہے۔اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے معاملہ میں تمام کفار ایک ملت ہیں خواہ ان کے اندر کتنی ہی تنظیمیں کیوں نہ ہو ں، اس لئے ان حالات میں خالص مسلم سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان شدت پسنداورمتعصب ہندواور فرقہ پرستوں کو آپس میںمتحد ومتفق کرنے کے موقع فراہم کرنےکےمترادف ہوگا جو مسلمانوں کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوگا ،اس لئے مسلمانوں کا علیٰحدہ سےکوئی سیاسی جماعت قائم کرنا مناسب نہ ہوگا ۔
مسلم عورتوں کا کسی پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑنا:
امارت وسیاست کے معاملات میں اسلام نے عورت کی شمولیت کو ہر گز پسند نہیں کیا ہے ۔اور نہ ہی عورت کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیت ایسی ہے کہ امارت وسیاست جیسے معاملات میں وہ حصہ لے ،اسلام نے امارت کے لئے جن شرائط کی پابندی لگائی وہ اسپر بھی پوری نہیں اتر تی ۔اسلام میں بے حیائی اور مردوزن کے آزادانہ اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،نیز اس ایسی صورت میں عائلی قوانیں بھی تباہ ہوجاتے ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے کافی اہمیت کے حامل ہیں ،اس جگہ یہ ذکر دینا بھی زیادہ مناسب رہیگاکہ جب اہل ایران نے بنت کسریٰ (پوران ،نوشیرواں کی پوتی اور شیرویہ کی بہن ) کو اپنا بادشاہ بنا لیا ،تو جب یہ خبر نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا:
کَیْفَ یَفْلح قَوْم وَلَّوْ اَمْرَھُم اِمْرَاۃً (بخاری کتاب المغازی)
ترجمہ: وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنا سر براہ ایک عورت کو بنالیا ہو۔
اور حدیث شریف میں ہے:
( عن ابي هریرة رض قال رسول الله ص اذا کانت امراءکم خیارکم و اغنیاءکم سمعاءکم و امورکم شوری بینکم فظهرالارض خیر لکم من بطنھا واذا کان امراء کم شرارکم واغنیاءکم بخلاءکم وامورکم الیٰ نساءکم فبطن الا رض خیر من ظھرھا۔ ( رواه الترمذی بحوالہ مشکٰوۃ ،باب تغیر الناس)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تمہارے حکمران اچھے لوگ ہوں اور تمہارے دولتمند سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہوں تو تمہارے لئے زندگی موت سے بہتر ہے اور جب تمہارے حکمران بد کردار ہوں اور دولتمند بخیل ہوں اور تمہارے معاملات بیگمات کے حوالے ہوں تو تمہاری موت زندگی سے بہتر ہے۔
ارشاد ربانی ہے ۔
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۳۲ۚ وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۝۳۳ۚ (سورۃ الاحزاب رقم الا یۃ ۳۲)
ترجمہ: اےپیغمبر کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو کسی (اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔ اور ان دستور سےکے مطابق بات کیا کرو .اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے .
عورتوں کو اللہ تبارک وتعالی نے خانگی امور کو سنبھالنے ،گھریلو زندگی کو سنوارنے ،بال بچوں اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے اور گھر کے اندورونی وداخلی معاملات کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے گھر کی ملکہ او ررانی بناکر پیدا کیا ،اور یوں فرمایا کہ عورت گھرکی ملکہ ہے گھر کے اندر کی ذمہ داری سنبھالنا ،بچوں کی تربیت کرنا اور شوہر کے مال ومتاع کی حفاظت کرنا اس کے فرض منصبی میں داخل ہے ،جس طرح کہ گھر کے باہر کی زندگی کو

سنوارنا ،مال ودولت کمانا ،مردوں کی ذمہ داری ہے ،مرد حضرات گھر کے باہر کے نظام زندگی کو کنٹرول کریں اور عورت گھر کے اندر کے نظام کو کنٹرول کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ولایت وحکم رانی کا اہل، اور وزارت امامت کے لائق مرد ہی ہوسکتا ہے ، عورت منصب وزارت وامامت اور حکومت وسیاست کی اہل نہیں ،عورتوں کو ولایت وحکمرانی دینے منصب وزارت وقیادت پر فائز کرنے اور انتخاب میں امیدوار بن کر کھڑے ہونے میںبہت سارے شرعی مفاسد اور امورمنکرہ کا ارتکاب لاز آتا ہے ،مثلا نا محرم مردوں کے ساتھ اختلاط ،اسٹیج پر عوام کے سامنے خطاب ، بلا محرم دور دراز کا سفر ،کونسلوں اور اسمبلیوں میں غیر محرم اجنبی مردوں کے سامنے روبر وہوکر بیٹھنا، وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے عورتوں کا انتخاب میں امید وار بننا شرعا ممنوع اور شریعت کےخلاف ہے ۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نوراللہ مرقدہ لکھتے ہیں ،، عورتوں کا امیدوار بننا ممنوع ہے ہاں ووٹ دیتے وقت شرعی پردہ کا لحاظ رکھنا لازم ہوگا اور بطور امیدوار کھڑا ہونا عورتوں کے لئےمناسب نہیں ،کیوں عورتوں کے لئے شرعی ضروریات کی رعایت کے ساتھ کونسل یا اسمبلی کی شرکت انتہائی مشکل اور دشوارہے۔
عورتوں کا پولنگ بوتھ پر جا کر ووٹ ڈالنا:
حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ مسلم عورتین اس طور پر اپنا ووٹ ڈال سکتی ہیں کہ ان کی بے پردگی نہ ہو اور ان کے پردہ کا باقاعدہ انتظام ہو اور اگراس عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم بھی ہو تو اچھا ہےنیز انتظامیہ کی طرف سے عورتوں کی جانچ کرنے والی بھی عورتیں ہوں اگر ایسا نہیں ہے تو خاتوں ملازمہ کا مطالبہ کرنا چاہئے اگر انتظامیہ اس مطالبہ کو پورا کردیتی ہے تو ووٹ ڈالنا چاہئے،نہیں تو ووٹ ڈالنا اس کےلئے جائز نہ ہوگا( عزیز المفتی غیرمطبوعہ)
اور مفتی کفایت اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں
اگر عورت شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے با پردہ ہوکر جس امید وار کو اہل اور لائق سمجھے اپنا ووٹ ڈال سکتی ہے ضروری ہے کہ پولنگ بوتھ پر بقاعدہ طورپر عورتوں کےلئے پردے کا معقول انتظام ہو ،غیر محرم اجنبی مرد حضرات منتظم نہ ہوں ،اور زنانہ اسٹاف بھی ہو ،تو اس صورت میں مسلمان عورتوں کے لیے ووٹ ڈالنا جائز ہے ، اور اگرصرف غیر محرم مرد ہی ہوں تو اس صورت میں عورت کے لئے ووٹ ڈالنے کے لئےجانا جائز نہیں ہے ،بلکہ ان کو زنانہ منتظم کا مطالبہ کرنا چاہئےاگر ایسا ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے۔،اور اگر زنانہ منتظم نہ ہوں تو عورت کے ساتھ اس کا شوہر یا کو ئی محرم شرعی ہو تو بھی جاکر ووٹ دے سکتی ہے بشرطیکہ اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔ (مستفاد کفایت المفتی ج۹ص۳۵۷)
مسلمان عورتوں کا قانوں ساز اداروں کا ممبر بننا:
جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کہ مسلم عورتوں کی ذمہ داریاں ان کی خانگی ذمہ داریاں ہیں امور خانہ داری سنبھالنا یہ عورتوں کی ذمہ داری ہے اور بیرونی یعنی باہری ذمہ داریاں مردوں کی ہیں اس لئے عورتوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ مردوں کے کام میں دخیل ہوں، عورت کی آواز بھی عورت عورت ہوتی ہے اور یہ اس کی زینت ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔
قرآن وحدیث اور اسلامی فقہ میں عورتوں کے متعلق شدید تاکید آئی ہے کہ وہ اپنے گھر کی ملکہ اور رانی بن کر رہیں اور بال بچوں کی تعلیم وتربیت ،شوہر کے مال ومتاع کی حفاظت کرنے کےلئے اپنے گھروں میں قرار پکڑیں ۔شریعت مطہرہ کے یہ تمام مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ جہاں نامحرم مردوں سے اختلاط اور بے پردگی کا خطرہ ہو اور عورتوں کی عفت وعصمت کی چادر تارتار ہونے کا خطرہ لاحق ہو وہاں عورتوں کے لئے جانا شرعا ممنوع ہے ،لہٰذا چوں کہ کسی بھی قانون ساز ادارہ کے ممبرکے لئے شرعی حدود وتقاضے کو پورا کرنا انتہائی دشوار امر ہے ، بے پردگی لازمی ، عورتوں کا اجنبی مردوں سے ہم کلام ہو نا ضروری ہے،کھلے چہرہ کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھنا ،اسٹیج پر برسر عام مجمع میں خطاب کرنا بھی نا گزیر ہے ، اس لئے ان تمام حالات کے پیش نظر قرآن وحدیث کے اصول وقوانین کے مطابق اور شریعت مطہرہ کی رو سے کسی عورت کےلئے کسی قانون ساز ادارے کا ممبربننا یا اسمبلی وکونسل کا رکن بننا شرعا ممنوع اور ناجائز ہے ۔ فقط واللہ اعلم با لصواب
احقر العباد
(مفتی) عابدالرحمٰن بجنوری مظاہری
بن مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ
مدنی دارالافتاء
مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم
محلہ مردھگان بجنور (یوپی)
۱۵/محرم الحرام ۱۴۳۴؁ھ
یوم الجمعہ       

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.