Saturday, 23 March 2013

22:55
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ



الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل




نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم : اما بعد

عابدالرحمٰن بجنوری مظاہری

بن مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری


فَاَ عُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (پ۱۴۳:۲)
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم :خیر الامور اوساطھا : اوکما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صدق اللہ العلی العظیم

اسلام اور انسانی حقوق :
اس تکوینی نظام کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے روز ازل سے لیکر آج تک اور آج سے لیکر قیامت تک کے لئے انسان کو خلیفۃ فی الارض بنا کر بھیجا ، انسانوں کی رہنمائی اور دنیاوی نظام کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو ایک ضابطہ حیات ایک قانون دیکر مبعوث فرمایا تاکہ انسان عدل وانصاف و بھائی چارگی ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پوری پوری پاسداری کرتے ہوئے آزادانہ زندگی گزاریں ،اور اس کو علم کی دولت سے سرفرازفرمایا تاکہ اچھے برے کی تمیز کرسکے اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو،اور دنیا میں امن سکون رہے کسی کی حق تلفی نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا۔
قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ۝۰ۭ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللہِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۝۶۰ [٢:٦٠]
اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی) لیا۔(ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو، مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا
اور دوسری جگہ فرمایا
وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝۲۰۵ [٢:٢٠٥]
اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا
اس طرح کی اور بھی آیات شریفہ ہیں جن میں عدم فساد اور باہمی بھائی چارگی اور مساوات کی تعلیم دی گئی ہے۔
انسانیت کی تاریخ کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں حقوق کی آزادی کے لئے بڑے بڑے انقلابات رونما ہوئے ،اور حقوق کی ادائیگی و حفاظت کے لئے بڑی بڑی جنگیں ہوئیں بے شمار بغاوتیں ہوئیں لیکن ہر جنگ وجدل کے بعد بھی حقوق انسانی کا وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے تھا بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگئے۔
بیشک اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا لیکن اس کی آزادی کو ایک شریعت وقانونمربوط کردیاہے تاکہ انسان اپنی آزادی کی خاطر دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کرسکے۔ یہ اسلامی دستور وقانون انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ،اس دستور میں اس بات کا پورا پورا خیال رکھا گیا کہ انسان کے فطری حقوق کی پامالی نہ ہو ۔ یہ دستور اسلامی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ حقوق ا نسانی ،دنیا کے ہر فرد و شخص کے تمام گوشہ ہاے زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
اسلام ا یک مکمل ضابطہ حیات ہے ،اسلام میں تمام قسم کے حقوق حقوق انسانی کے دائرہ کار میں آتے ہیں ،اسلام نے مذہب ودین ،ر نگ و نسل ، خاندان ونسب ،رشتہ وقرابت ،علاقہ وملک،غرض کہ تمام گوشہ ہائے زندگی کو اور تمام دوسری بنیادی ضرورتوں کو انسان کی حقوق کی تشکیل میں سامنے رکھا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فَاَقِمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۳۰ۤۙ (روم:۳۰)
ترجمہ: تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس میں تمام جسمانی مادی ضروریات کے پہلو بہ پہلو روحانی واخلاقی ضروریات کابھی خیال رکھا گیا ہے ،اور یہ ایسی ضروریات ہیں جن کے عدم توازن کی وجہ سے انسانی شخصیت میں بھی توازن برقرار نہیں رہتا ،تو اس طرح جب افراد واشخاص کی فطرت متاثر ہوگی تو پورا سماج ہی متاثر ہوگا ۔چنانچہ اسلام انسانی حقوق کی پاسداری میں سب سے آگے ہے ۔اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ آفاقی بھی ہے اور ابدی بھی اگر ازلی بھی کہا جائے تو کوئی مضائقہ اور مبالغہ نہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب سے انسان کا وجود اس دنیا میں آیا ہے ،اسلام نے اس کو تما م حقوق بلا مطالبہ دائمی طور پر عطا کردئے۔ اسلام تمام انسانوں کو ان کی انسانیت کےرشتہ وتعلق سے انسانی حقوق عطا کرتا ہے ۔وہ مسلم غیر مسلم ،علاقہ وطن ،رنگ نسل ،غرض کہ کسی قسم کی تفریق نہیں کرتا۔
اسلام کے برعکس مغربی کلچر وتہذیب وتمدن نے انسان سے انسانیت چھین لی ۔آپس میں نفرت تعصب ،بد تہذیبی علاقائیت ،غرض کہ انسان کو انسان ہی کی نگاہ میں ذلیل و رسوا کردیا۔ انسان کا روحانی سکون ختم کردیا ،آج مغربی انسانیت روحانی سکون کے لئے دردر بھٹک رہی ہے ۔ جب ان مستشرقین کو روحانی سکون نہیں ملا تو انہوں نےپوری انسانیت کو اپنا جیسا اور ہم خیال بنانے کے لئے شیطانی چالیں چلنی شروع کردیں اور سیدھا اسلام اور مسلمان کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔اور انسان کو انسان سے حیوان بنادیا۔
اسلام اور جمہوریت :
اسلام واحد ایسا دین ومذہب ہے جو انسانی فطرت وعین عقل کے مطابق ہے ۔اسلام کی اس خوبی اور ہماگیریت کی وجہ سے مستشرقین پریشان ہوگئے اور انہوں نے یک زبان ویک ذہن ہوکر اسلامی تعلیمات کے خلاف یلغار کردی ،اور انہوں نے سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے اقتدار پر کیا ،جن کو جنگ کے ذریعہ جیت سکتے تھے ان کو جنگ کے ذریعہ حاصل کیا اور جو ان کے قبضہ میں نہ آسکے وہاں کی عوام میں بغاوت کے بیچ بوکر جمہوریت کا سبز باغ دکھا کر وہاں جمہوری نظام نافذ کرادیا ،چنانچہ اس وقت تقریباًپوری دنیا میں جمہوری نظام نافذ ہے اور جہاں جمہوری نظام نہیں ہے لیکن جمہوری نظام سے متاثرضرور ہیں ،اس طرح سے آج جمہوریت زمانہ کی مجبوری اور ضرورت بن گئی ہے۔
مستشرقین کےزعم باطل کےمطابق یہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہے ،لیکن یہاں بھی ان کو منہ کی کھانی پڑی ،اسلام کیونکہ انفرادیت کی تعلیم نہیں دیتاتا سب کو ساتھ لیکر چلنے کی دعوت دیتاہے ، زمانہ کی ضرورت بن جانا واقعی یہ اسلام کا ایک اہم پہلو اور تقاضا ہے ۔مگر اس کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا جائے ،اسلامی عقائد اور اساسی حقائق کو گئے گزرے دور کا موضوع بنا دیا جائے،اللہ اور بندے کے درمیان ایک دیوارکھڑی کردی جائے۔اور اللہ تعالیٰ کو حاکم اعلیٰ نہ مان کر بندوں کو ہی وہ مقام دیدیا جائے ،اسلام میں ایسے خداؤں کی کوئی گنجائش نہیں۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.