Sunday, 24 February 2013

07:15
جنگ آزادی اور مدینہ اخبار بجنور


جنگ آزادی میں اردو اخبارات نےجو اہم کردار ادا کیا ہے وہ محتاج تعارف نہیں دارورسن کی مسلسل آزمائشوں کے با وجود ان اخبارات نے دنیا کی عظیم ترین سامراجی قوت سے بھر پور ٹکر لی اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا، اورصحافتی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے صحافتی دیانت داری کے علم اونچا رکھا ، تمام قومی تحریکیں انہیں اخباروں کے ذریعہ وجود میں آئیں اور انہیں کے ذریعہ پھیلیں اور انہیں کے ذریعہ شمع حریت کے پروانوں کو اپنے خوابوں کی تعبیرملی، اردو صحافت کی یہ خوش نصیبی رہی کہ ابتداء سےہی اسے جذبہ حریت کےاس ننھے پودے کو سینچنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ چنانچہ اس کی جڑوں کو پہلا خون دہلی کےمشہور زمانہ ’’دہلی اخبار‘‘ کے اڈیٹر مولوی محمد باقر صاحب نے دیا ۔ ۱۸۵۷؁ء کی پہلی جنگ آزادی سے۱۹۴۷؁ء تک اس پودے کے بار آوار درخت ہونے تک اس کے چاہنے والے جانثاروں کے ایثار و سرفروشی کے کار ہاے نمایاں آج بھی قومی آزادی کا ایک درخشاں باب ہے اور تاریخ کا قابل فخر سرمایہ ہےاور قوم وملت کے لیے عظیم الشان یادگاریں رقم کرنے میں کامیاب رہے۔
۱۹۱۲؁ءمیں عالم اسلام کے لیے ایک سیاہ دور کا آغاز ہوا جس میں برطانیہ عظمیٰ‘ British Empire اور اس کی ہمنوا حکومتوں نے ملکر بلقان کی ریاستوں کو اکسا کر ترکوں کے بالمقابل لا کھڑا کیا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے خلافت کا خاتمہ ان دشمنان اسلام کے ہاتھوں ہوا یہ وہی خلافت کا زمانہ تھاجس نےان کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس دوران ملتِ روم کی سیادت کا پرچم ’برطانیہ عظمیٰ‘ British Empire کے ہاتھ میں تھا اور اس کی کچھ جھنڈیاں فرانس کے پاس۔ اس ہنگامے نے منتشر ملت کو ایک نقطہ پر جمع کردیا ۔اسی پرآشوب دور میں تین ایسے اردو اخبارات’’ الہلال ‘‘ ’’ہمدرد‘‘ اور ’’مدینہ‘‘ نے جنم لیا جن کا شمار جنگ آزادی کے ہر اول دستے کے طور پر ہوتا تھا ۔ ان اخبارات میں ’’ مدینہ‘‘ کو تقدم زمانی کا شرف حاصل ہے ،اور یہ تفوق اس کی قر بانیوں کی وجہ ہے کہ ہزاروں دقتوں کے باوجود یہ مسلسل نکلتا رہا ،اور طویل عمر پائی
’’مدینہ ‘‘ کے بانی مولوی مجید حسن مرحوم نے اسے قلیل پونجی کے ساتھ یکم مئی ۱۹۱۲؁ءکو ہفتہ واراخبار کی شکل میں بجنور سے جاری کیا یکم جنوری ۱۹۱۷؁ءسے سہ روزہ ہوگیا۔ ’’مدینہ‘‘ اخبار نے قومی تحریک آزادی کی تائید ،اور آزادی خواہ جماعتوں کی حمایت ، مسلمانوں کے سیاسی تمدنی اور لسانی حقوق نیز اسلامی آثار وشعائر کے تحفظ کی جس پالیسی کا آغاز روز اول سے کیا تھا اس پر پوری سچائی اور بے لوثی کے ساتھ آخر تک قائم رہا۔
’’مدینہ‘‘ کی بڑی خصوصیت یہ بھی رہی کی اس کے ادارہ تحریر میں جن حضرات کی خدمات حاصل ہوئیں، وہ نہ صرف اس کی قوم پرورانہ، اور حریت پسندانہ موقف کے موئید تھے بلکہ اپنے زمانے کے مشہور انشاء پرداز اور صاحب طرزنثر نگار بھی تھے ۔ چنانچہ’’ مدینہ‘‘ کے اڈیٹروں کی فہرست میں ہمیں علی الترتیب ،حافظ نورالحسن ذہین ، آغاز رفیق بلند شہری، مولانامظہرالدین شیرکوٹی ، مولوی نصیرالحق دہلوی، مولوی احقاد حسین بریلوی، حافظ علی بہادرخاں مرادآبادی، شاہ خلیل الرحمٰن بہاری، قاضی محمد عباس ، قاضی بدرالحسن جلالی،مولوی امین احمداصلاحی ، مولانا مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری،مولوی شبیراحمد چاندپوری،مولوی نورالرحمٰن بچھرانوی،ابوسعید بزمی،حمیدحسن فکر،مولانا مسعود عالم ندوی،مولانا ابواللیث اصلاحی،قدوس صہبائی، مولاناحامد اللہ انصاری غازی،ضیاالحسن فاروقی۔اور سعید اختر،جیسےمشہور اہل قلم اور صحافی نظر آتے ہیں جنہوں نے اردو صحافت کی زبوں حالی کے باوجود’’ مدینہ‘‘کے ادارتی فرائض انتہائی دیانت داری سے انجام دیئے ۔ جنگ آزادی میں یوں تو متعدد اردو اخبارات نے حصہ لیا لیکن ادبی رنگ میں حریت پسندی کی ترویج واشاعت میں ’’مدینہ‘‘ نے جو کردار ادا کیا اس کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اردو صحافت میں ’’مدینہ‘‘ کی ایک خاص خصوصیت یہ بھی رہی کہ ایڈیٹر وں کو اظہار خیال کی مکمل آزادی تھی تقرر سے پہلے انہیں یہ لکھ دیا جاتا تھا کہ ’’مدینہ‘‘ کی پالیسی قوم پرورانہ ہے اور وہ ملک کی آزادی خواہ ،جماعتوں کا ہمنوا اور مسلمانوں کے حقوق اور مسلم مفاد کا ترجمان ہے ۔اس پالیسی سے اتفاق ہو تو تشریف لاکر ہماری عزت وہمت بڑھائیے۔
’’مدینہ‘‘ اخبار نے اس خیال کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہ سامراجی حکومت کبھی ہندوستانی وایشیائیوں کی ہمدردی نہیں ہوسکتی ۔اس کے اداریوں اور شذرات میں حکومت کے خلاف بڑی تیکھی باتیں لکھی جاتی تھیں ۔سیاست کے علاوہ مذہبی ادبی وثقافتی موضوعات پر بھی مضامین شائع ہوئے نیز خواتین کی تحریروں سے بھی یہ اخبار مزین ہوتا تھا ،علاوہ ازیں نظمیں غزلیات طنز ومزاح کی بھی آمیزش ہوتی تھی ابتداء ہی سے اکبر الٰہ آبادی مولانا شبلی ،علامہ اقبال، مولانا حسرت موہانی ،ظفر علی خاں ، ماہر القادری، جگر مرادآبادی ، مولانا محمد علی جوہر ، شوق قدوائی ، روش صدیقی ،ساغر نظامی ، محمد عثمان فار قلیط، نیزدیگر مشاہیر کی تخلیقات ’’مدینہ‘‘ کے صفحات کی زینت رہیں۔
’’مدینہ‘‘ اہم مضامین وخبروں سے متعلق نقشوں کا بھی خصوصی انتظام کرتا تھا، اخبار کی زندگی کے ابتدائی دور میں انڈین نیشنل کانگریس میں مسلمانوں کی بحیثیت مجموعی شمولیت ایک شجر ممنوعہ تھی ’’مدینہ‘‘ کے مالک ومہتمم مولوی مجید حسن مرحوم کی زمانہ شناس نظریں مستقل کے سیاسی خاکے کو بڑی وضاحت ،صفائی سے دیکھ رہی تھیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو کانگریس میں شمولیت کی دعوت اخبار کی حکمت عملی کاا بتداء سے ہی بنیادی اصول رہا یہ واحد اخبار ہے جس نے کھل کر کانگریس کی حمایت کی اور مسلمانوں کو کانگریس کی طرف مائل کیا جس کی بدولت کانگریس کو ایک طویل عرصہ تک ہندوستان میں اقتدار حاصل رہا، ملاحظہ ہو ۱۹۱۳؁ءکے اداریے کا مندرجہ ذیل اقتباس:
کانگریس میں مسلمانوںکی شرکت :
کانگریس ہندوستان کی وہ جماعت ہے جو اپنے حقوق کی حفاظت وطلب میں جدوجہد کرتی اور گورنمنٹ برطانیہ پر نکتہ چینی کرکے انتظامی معاملات میں اعتدال کا مشورہ دیتی رہتی ہے ۔ جس وقت یہ قائم ہوئی تھی سرسید کو باز رکھنا اس وقت بہت سے فوائد کا موجب ہوا ۔سرسید کی مخالفت جن مصالح پر مبنی تھی وہ اس وقت بالکل بجا اور ددرست تھی لیکن اب جب کہ وہ تمام مصلحتیں جن کو سرسید نے پیش نظر رکھ کر کانگریس کی شرکت سے منع کیا تھا کم وبیش دور ہوگئی ہیں اور مسلمانوں کی ضروریات و حقوق میں یوماً فیوماً اضافہ ہورہا ہے اس لیے اب سوال ہوتا ہے کہ آخر مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کس طرح کریں کیوںکہ مسلمانوں میں جو جماعتیں قائم ہیں وہ افراط تفریط کی بدولت اس مقصد سے دور ہٹ گئی ہیں اور نہ اس وقت تک ان سے کوئی مفید ملکی وقومی خدمت انجام دی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
کانگریس کی ملکی خدمات اگر اس وقت پسندیدہ سمجھی جارہی ہیں اور وہ سچی خدمات ملکی کی حامل ہے تو ہمارے نزدیک کوئی وجہ ایسی نہیں کہ ہم خواہ مخواہ اس کی مخالفت کریں یا اس کے مقاصد کو لے کر ایک جداگانہ جماعت قائم کریں اس لیے اگر کانگریس ملک کے لیے مفید ہے تو اس سے فائدہ اٹھا یا جائے اور مسلمان اس میں ضرور شریک ہوں (۲۲اکتوبر۱۹۱۳؁ء
اگست۱۹۱۴؁ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی جنگ شروع ہوتے ہی تمام اخبارات پر خبروں کی اشاعت میں سنسر کی پابندی لگ گئی نیز قانون تحفظ ہند تحت حکومت کو رائے عامہ کے کچلنے کے لیے ہر قسم کے وسیع اختیارات حاصل ہوگئے ،ترکی کی جنگ میں شمولیت کے ساتھ مسلمانوں کی دارو گیرکا نیا سلسلہ شروع ہوا
دواران جنگ ’’قانون مطالبے‘‘ کی سختیاں تو تھیں ہی ’’ قانون تحفظ ہند‘‘ کے سفاکانہ حملوں اور اس پر مستزاد کاغذ کی گرانی وکمیابی نے بیشتر اخبارات کا قتل عام کیا ’’مدینہ‘‘ نے اپنے سہ روزہ ہونے کی سالگرہ پر سبھی اخبارات کو نام بنام بیان کرنے کے بعد اپنے افتتاحیہ میں لکھا:
’’تمام پنجاب مسلمانوں کا ایک روزنامہ ’’ستارہ صبح‘‘جھلمل جھلمل کررہا ہے کیوں کہ سیاست کی روشنی اس سے چھین لی گئی ہے اور وہ علم و مذہب کے نور سے اس کی تلافی کررہا ہے۔ غرض یہ سب وہ معاصرہ تھے جو اس طوفانی کشتی میں ہمارے ساتھ سوار تھے ۔ لیکن طوفانی سمندر کی موجوں نے انہیں ہماری آغوش رفاقت سے چھین لیا اور ہماری آنکھوں نے انہیں غرق ہوتے دیکھا پس ایسی حالت میں جب کہ ایک سانس کے بعد دوسرے سانس کی توقع نہیں ، کامل ایک سال گزار دینا یہ محض اس رب قدیر کی ذرہ نوازی اور کرم فرمائی ہے ‘‘ (۵ جنوری۱۹۱۸ء)
دوران جنگ اخبار ’’مدینہ ‘‘غالباً پہلامقبول اخبار تھا جس نے سیاسی نظر بند وں وقیدیوں کے حالات کے علم کے لیے آواز اٹھائی اور مسلسل اس موضوع پر لکھ کر رائے عامہ کو بیدار کیا۔
جنگ عظیم کے بعد جو ہنگامہ خیز سیاسی دور آیا اس میں اخبارات کے خلاف داروگیر اور بڑھی ، ضمانتیں طلب ہوتی تھیں ،چھاپے خانے ضبط کئے جاتے تھے اور اڈیٹر گرفتار کئے جاتے تھے ’’ مدینہ ‘‘نے اس مشکل ترین دور میں بھی وقت کے سبھی اہم مسائل پرقومی جذبات واحساسات کی بھر پور ترجمانی کی۔
مارچ /اپریل 1919؁ء میں رولٹ بل کے خلاف پورے ملک خصوصاً دہلی و پنجاب میں بڑے پیمانے پر جلسے جلوس و مظاہرے ہوئے ۔اقتدار کی سخت گیریوں کے ساتھ ساتھ رد عمل کی شدت بھی بڑھتی گئی ۔۔ لیکن پر امن رد عمل کے با وجود حریت کے شیدائیوں پر لاٹھیاں و گولیاں برسیں ۔ نتیجتاً ۳۱/پریل۱۹۱۹؁ءکو جلیان والا باغ کو وہ خونی المیہ پیش آیا جس کی یاد آج بھی دلوں کو گرماتی ہے۔ ہندوستانی قومیت وحب الوطنی کے ترجمان ’’ مدینہ‘‘ کے صفحات حکومت پنجاب کے ظلم و ستم کا پردہ چاک کرتے ہے ۔ انجام کار ۹ /مئی۱۹۱۹ ؁ء کو ’’مدینہ‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ،بحکم پنجاب گورنمنٹ ’’ مدینہ‘‘ کا داخلہ پنجاب میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ بطور نوٹ یہ اظہار عظم کیا گیا کہ ملک بھر میں آزادی خواہ اخباروں کا قتل عام کیا جا رہا ہے لیکن ناظرین کرام کو ہم یہ اطمینان دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ’’ مدینہ‘‘ اس کے بعد بھی زندہ رہے گا ۔ ۱۳/مئی ، ۱۷ /مئی کے اداریے کا عنوان تھا:
ہزار شمع بکشتند وانجمن باقی ست

۱۳ /مئی ہی کی اشاعت کا یہ جرآت مندانہ وبے خوف طنز بھی ملاحظہ ہو:
پنجاب اور صحافت حاضرہ:
’’ایک طرف ہم بیسویں صدی اور اس کی برکات آزادی کو دیکھتے ہیں ، مسٹر لائڈ جارج اور مسٹر وِلسن کے نغمہ ہائے حریت نواز ہمارے کانوں میں آرہے ہیں دوسری طرف پنجاب کی زبان بندی وقلم بندی ہمارے سامنے ہے اور ہم متعجب ہیں یہ بیسویں صدی ہے یا اٹھارویں صدی ، یہ عہد تو حضور ملک معظم کا ہے جو برطانیہ عظمیٰ کے تخت حریت وانصاف پر متمکن ہیں لیکن یہ کیا قیامت ہے کہ آپ کے بعض تنخواہ دار نوکر ہندوستان میں بااختیار ہوکر یہ سعی کر رہے ہیں کہ فرانس کے بادشاہ لوئی چار دہم اور لوئی شانزدہم کی یاد تازہ کردیں‘‘ (۱۳ /مئی۱۹۱۹ ء)
۲۵ /مئی۱۹۱۹؁ء سے ’’ مدینہ‘‘ اپنے نئے نام’’ یثرب‘‘ سے شائع ہونا شروع ہوا اور پنجاب کے خریداروں تک پہنچتا رہا ،’’ یثرب ‘‘ کی پیشانی اقبال کے اس شعر سے مزین ہوتی تھی؎
خاک یثرب از دو عالم خوشتر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است
حکومت پنجاب کو ’’ مدینہ‘‘ کا نیا رنگ پہچاننے میں دیر نہ لگی اور’’ یثرب ‘‘پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اور یوں ۲۵ /اگست۱۹۱۹؁ ء سے اخبار’’ مدینہ‘‘ کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا۔ پریس ایکٹ کے خلاف جدو جہد برابر جاری رہی۔
قاضی بدر الحسن جلالی ( بی اے علیگ) نے جو اپنے زمانے کے انتہائی کامیاب و مقبول صحافی تھے ’’مدینہ‘‘ میں طنز و مزاح کا کالم ’’ سر راہے‘‘ شروع کیا جو چالیس سال تک اس کا مخصوص کالم رہا ۔ قومی جہد آزادی کے ہر ایک اہم پڑاؤ پر ’’مدینہ‘‘ نے بے خوف و خطر قومی جذبات کی ترجمانی کی اور اردو صحافت کی آبرو کو باقی رکھا ۔ ۱۹۲۸؁ء میں اپنی جنوری کی اشاعت میں سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کی ترغیب باکس میں جلی حروف میں دیتا رہا مثلاً:
’’ بالڈون حکومت کے استبداد کو اگر موثر اور مثبت جواب دینا چاہتے ہو تو مادر ہند کے اولوالعزم فرزند و ۳/فروری کو متحد ہ ہڑتال اور سوگ مناؤ اور اپنی عزت و حرمت کا فیصلہ اپنے آپ کرو‘‘ یا سائمن کمیشن کا بہترین خیر مقدم استبداد اور قیصریت کا جنازہ اٹھا دینے میں ہے ،یہ صرف عام ہڑتا لوں اور ہمہ گیر مقاطعہ سے ہی ہوسکتا ہے جس کی ابتداء ۳ /فروری سے ہو‘‘
۱۹۳۰؁ء کی ستیہ گرہ میں اخبار ’’مدینہ‘‘ نے انتہائی فَعال وانقلابی کردار اداکیا، ۱۷ /مارچ ۱۹۳۱ ء کو مولانا نصر اللہ خاں عزیزؔ نے اپنا ولولہ انگیز اداریہ ’’فصل بہار‘‘ لکھا جو اردو صحافت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اداریے کا آغازمندرجہ ذیل شعر سے ہوا تھا؎
پیر مغاں کو دو خبر،کھول دے میکدے کا دور
مست گھروں سے چل دئے ،ابر بہار دیکھ کر

اور پھر لکھا تھا
’’آج سے پورے گیارہ سال قبل ہندوستان کی دنیا رولٹ ایکٹ کے قیادت خیز ہنگامے سے تہ وبالا ہوئی تھی ، موسم بہار کے آغاز کے ساتھہی وطن مظلوم کی گلستاں خزاں رسیدہ میں از سر نو بہار آگئی تھی ، ٹھیک ۳۱، مارچ کو ہندوستان کے میکدہ حریت کے سب سے بڑے میگسار کو گرفتار کیا گیاتھا اور ٹھیک ۱۲ مارچ کو وہی شہسوار میدان حریت پھر میدان جنگ اپنے مختصر قافلے کے ساتھ بسم اللہ کہہ کر قدم رکھتا ہے‘‘
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر ، فشاں ہوگی آہ میری نفس ،میرا شعلہ بار ہوگا
آسماں حیرت زدہ ہوکر زہرہ ومشتری سے دریافت کررہا ہے کہ ہندوستان کے لوگ کہیں پاگل تو نہیں ہوگئے اور بالخصوص اس پیرانہ سال نحیف الجثہ ،مشت استخواں گاندھی کا دماغ تو نہیں چل گیاجو انتہائے بے سروسامانی کے ساتھ تشدد اور استعمال قوت کے خیال تک سے دست بردار ہوکر بالکل غیر مسلح صورت میںایک ایسی حکومت کے مقابلہ کا ارادہ رکھتا ہے جو جرمن ،آسٹریا اور ٹرکی کی مسلح اور قوی حکومتوں کو شکست دے چکی ہے ۔۔ مسلمانوں کی پوزیشن باکل صاف اور واضح ہے ۔ مسلمان ایک بہادر اور غیور قوم ہے ۔وہ میدان جنگ میں معرکہ کا رزار گر م ہو تے ہی اپنی مجاہدانہ فظرت اور ایثار پرورانہ طبیعت سے مجبور ہوجاتی ہے۔۔ اس کے علاوہ اس کے دل میں برطانوی حکومت کی طرف سے جو شدید نفرت کا جذبہ موجزن ہے وہ اسے نچلا نہیں بیٹھنے نہیں دیتا۔برطانوی حکومت کا نام سنتے ہی اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اس کی آنکھوں کے سامنے اسلامی سلطنت کے دہشت انگیز کھنڈر آجاتے ہیں جس کی بربادی پر ہندوستان میں انگریزی حکومت کا قصر فلک بوس تعمیر ہوا ہے ۔اسلامی دنیا کی مجبوری اور مظلومیت کا فسانہ اس کو از بر ہوجاتا ہے ، ہندوستان میں رہنے والا کوئی شخص برطانوی حکومت سے مسلمانوں کے برابرنفرت نہیں رکھتا۔
ایوان حکومت میں اداریے کا رد عمل وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ۳۱ /مارچ ۱۹۳۰؁ء کو اڈیٹر ’’مدینہ‘‘ گرفتار ہوگئے اور پورے ضلع میں سول نافرمانی کی تحریک زورپکڑگئی ۔
مولانا نصراللہ خاں عزیز ہی کے دور ادارت میں ۵ /مارچ ۱۹۳۵ء سے عزیز لکھنوی کا شعر ؎
معجزہ شق القمر کا ہے مدینے سے عیاں
مہ نے شق ہوکر لیا دین کو آغوش میں

’مدینہ ‘‘ کی پیشانی کا جھومر بنا:
۱۹۳۵؁ ء کے وفاقی ایکٹ کے نفاذ کے بعد مسلمانوں کے سامنے انتخاب کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ تھا مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا پر کڑی تنقیدکے ساتھ مسلمانوں کو کانگریس کی حمایت کا مشورہ دیتے ہوئے اداریہ لکھا گیا:
مسلمانوں زندگی کی طرف آؤ:
’’مسلمان سن لیں خوب غور سے سن لیں انہوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے خیال و فیصلے کے مطابق ایک سیاسی راہ قائم کرکے اور اس پر چل کر دیکھ لیا ،یہ راہ غلط تھی آج یہ غلطی آشکار ہوچکی ہے غیر ملکیوں سے غیر مشروط تعاون اور تعاون بھی بربادی کی راہ پر اپنے ہم وطنوں سے عدم تعاون اور بہر صورت عدم تعاون دنیا کی سیاست میں نہ چلی ہیں اور نہ چل سکتی ہیں جزئی اختلافات پر ملک کے اصولی اور بڑے مسائل سےعلیحدہ ہوجانا نہ دلیل حیات ہوسکتی ہے اور نہ موجب حیات‘‘ ( یکم دسمبر ۱۹۳۹ ء)
۹ /نومبر ۱۹۳۸ ء سے لیکر ۲۱ /اپریل ۱۹۳۹ ء تک ’’مدینہ‘‘ کے صفحات پر ’’مسلمان کیا کریں‘‘ ؟ کے عنوان سے تفصیلی بحث کا مسلسل سلسلہ چلا جس کا اختتام اڈیٹر ابوسعید بزمی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا:
’’پس جب تک ہندوستان کے سر پر غیر ہندوستانی طاقت کا بھوت منڈلارہا ہے ہندوستان کاتمام فرقوں کا ایک متحدہ محاذ ضرور قائم رہنا چاہئے موجودہ حالت میں اس مقصد سے کانگریس میں شریک ہونا از بس ضروری ہے‘‘
(جوبلی نمبر ‘ ماہ اپریل ۱۹۳۹ ء)
انگریزی حکومت اہم مخالف اخبارات وجرنلس کے ریکارڈ کو اپنی خفیہ فائل میں رکھنے کا خصوصی اہتمام کرتی تھی ، ۱۹۳۸ء کے آر کاٹوز ریکارڈ ‘ یوپی اور اودھ کے اخبار وجرنل کے ’’بیان ‘‘ میں ’’ مدینہ‘‘ کے متعلق درج ہے کہ ’’ یہ کانگریس کا حامی ‘ جمعیۃ العلماء ہند کا حمایتی ‘ مسلم لیگ و ہندو مہا سبھاکا زبردست مخالف اور اردو کے تمام اخبارات میں مقبول ہے اور دور رس اثرات کا حامل ہے‘‘
مسلم لیگ وہندو مہا سبھا پر سب سے زیادہ تیکھے وار مولانا ابو سعید بزمی کے زمانے میں ہوئے ۔ ملاحظہ ہو دو مختصر نمونے جس میں مسلم لیگ اور دوسرا ہندو مہا سبھا سے متعلق ہے:
لیڈروں کو جانچو:
’’ ضروری چیز یہ ہے کہ آج جن لوگوں نے لیڈری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ان کی جانچ کی جائے مسلم لیگ اصولاً اچھی ہے یا بری اس کے فیصلے کا اختتام ہم آپ سے نہیں چھینتے لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ خدارا ان لوگوں سے بچنے کی کوشش کرو جو شیر کے پوستن میں گیدڑ ہیں اور جو صرف ہوس اقتدار کے لیے اسلام کے نام کو محض ہتھیار کے طور پر استعمال کر ہے ہیں‘‘
(۲۵ /جولائی ۱۹۴۰ ء)
جداگانہ ہستی:
’’ ہندو مہا سبھا یا ہندو سنگٹھن کی قسم کی جماعت کا تو ذکر ہی فضول ہے یہ فطرت کی ستم ظریفی ہے کہ اس نے مسٹر ساورکر جیسے لوگوں کی آنکھوں پرپٹی باندھ دی ہے اور کانوں میں ٹھیٹھیاںلگادی ہیں کہ جن کی وجہ سے حقیقتوں کو دیکھنے اور سچائی کو سننے کی صلاحیت ہی ان سے مفقود ہوچکی ہے‘‘ (۲۵ /اگست ۱۹۴۰ ء )
ابو سعید بزمی ۲۳ /ستمبر کو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے اور مقدمہ کے بغیر ان کو اکیس ماہ کی سزائے قید دی گئی ۔
غرض کہ’’ مدینہ‘‘ اخبار اپنی انہیں صفات کے باعث کافی طویل عرصہ تک مقبول عام رہا اور اردو صحافت کے پرچم کو بلند رکھا ،اور ساتھ ہی ساتھ اس نے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے شعوری بیداری بھی کی اور مسلمانوں میںمذہبی و تعلیمی رجہان بھی پیدا کیا جس میں مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ کا نام نامی ہمیشہ یاد رکھا جائےگا جن کی محنتوں سے مسلمانوں میں دینی اور تعلیمی رجہان پیدا ہوا ۔اپنی ان خوبیوں کی وجہ سے ’’مدینہ‘‘ نے ایک طویل عمر پائی اور علماء و دانشوروں کے طبقہ میں مقبول رہا ،اور عوام وخواص میں سراہا گیا جس کی وجہ سے اس کو دیر پا استحکام اور وسیع تر مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ’’مدینہ ‘‘ کی یہ مقبولیت برصغیر ہی میں نہیں بلکہ یورپ و ایشیاء کے جن جن ممالک میں اردو داں طبقہ موجود تھا ’’مدینہ‘‘ وہاں وہاں پہنچا ۔
۱۱نومبر ۱۹۶۶ ء ’’مدینہ‘‘ کے بانی مولوی مجید حسن صاحب کا انتقال ہوگیا اور ان کی وفات کے بعد تقریباً آٹھ سال یہ اخبار زندہ رہا ۔ اور پھر
’’ پھر ایک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے‘‘

فقط والسلام
دعاء کا طالب
عابدالرحمٰن بجنوری       

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.