Thursday 29 May 2014

17:24

اُف یہ خواب خرگوش اور دستک دیتی قیامت

مفتی عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری


خرگوش کو ا س کی خوش فہمی نے ڈبویاوہ اپنی سبک روی اور تیز رفتاری پر نازاں تھا ،ذہنی پستی ،سَستی سُستی اور آرام طلبی نے اس کی خوش فہمی کو اس وقت کافورکردیا جب کچھوے نے میدان مارلیا،یعنی چڑیا چگ گئی کھیت،اپنی سست رفتاری کے لئے مشہور سیدھا سادھا کچھوا محنت اور لگن کی علامت یہ کچھوا میدان مار لیتا ہے ، اپنے کام سے کام رکھنے والا یہ جانور امن کا داعی ہے کسی سے لڑتا نہیں مار دھاڑ نہیں کرتا۔اگر کوئی اس پر ظلم کرتا ہے تو بڑے مؤدب طریقہ سے اپنی گردن جھکا لیتا ہے ،شرم اور ندامت کے ساتھ اپنا منہ چھپا لیتا ہے ،دشمنوں کے حملوں کو برداشت کرلیتا ہے،حلم اور بردباری کا یہ پیکر اپنے کام سے کام رکھتا ہے،چلتا ہی رہتا ہے چلتا ہی رہتا ہے اور بالآخر میدان مار لیتا ہے۔
یہی مثال قدیم مسلمانوں کی ہے ،شرم وحیا کاپیکر محنت اور جفا کشی ،صبرو تحمل کی صفات سے متصف یہ مسلمان جب تک یہ بے ضرر رہا پرندے، چرندے،درندے،سب بلا خوف اس کے سامنے سرنگوں ہوجاتے بلاخوف و تردد اس کے پاس بیٹھے رہتے،اس وقت اس مسلمان کی کیفیت یہ تھی کہ یہ خود جاگتا اور دوسروں کو سلاتا ، حتیٰ کہ آواز میں بھی پستی اور نرمی اختیار کرتا ،چال میں بھی بھولا پن اختیار کرلیتا کہیں قدموں کی چاپ سے خوابیدہ کی نیند میں خلل واقع نہ ہوجائے،اشاروں کی زبان اختیار کرتا،گفتار اور کردار کا غازی یہ مسلمان جس سے جو کہدیا اس کو پورا کردیا،جو اس کے پاس آگیا وہ محفوظ ہوگیا،خود چلچلاتی دھوپ میں رہتا اور دوسروں کے لئے سائبان بن جاتاتھا،اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر خود بھوکا رہتا ، لیکن دوسروں کو شکم سیر کرادیتا،پیاس کی شدت میں جان دینا تو گوارا کرلیتا لیکن پیاس کی حالت میں اپنے ساتھی اپنے بھائی کو تڑپتا دیکھنا گوارا نہیں کرتاتھا،شرم وحیا کا پیکر یہ مسلمان جس کے احترام میں فرشتے بھی سرنگوں ہوجائیں،اور خود خالق کائنات فرشتوں کی مجلس میں ان پر فخر کرے،سمندروں کی مچھلیاں ،ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے ان کے لئے دعاء کریں،جس گلی سے یہ مسلمان گزر جائے شیطان وہاں سے فرار ہوجائے،اس کی بہادری اور شجاعت کا یہ عالم کہ بڑی سے بڑی جری اور بہادر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس لشکرصرف ان کی لاٹھی دیکھ کر گھبرا جائیں اور میدان چھوڑ بھاگیں،جدھر کویہ مرد مومن رخ کرلیتے فتح اور کامرانی ان کے قدم چومنے لگتی،بڑے بڑے مضبوط قلعے اس مرد مومن کے سامنے ریت کا تودہ بن جاتے،دنیا کے بڑے بڑے دولت منداور تاجراپنی لڑکیوں کو نکاح کے لئے پیش کرنا اپنے لئے باعث افتخاراور باعث فلاح سمجھتے،بڑے بڑے سربراہان مملکت ان کے سامنے دولت کے انبار لگادیتے مگر مجال ہے کہ ان کے پائے استقلال میں ذرا بھی لرزش واقع ہوجائے،امانت داری کایہ عالم کہ غیر مسلم بھی اپنی امانتیں ان کے پاس رکھ کر مطمئن اور ٹینشن فری ہوجاتے،الغرض انسانیت کا علمبردارگفتار اور کردار کا پیکر تھا یہ مسلمان۔
کہاں ہیں آج وہ مسلمان ؟کیاآج بھی وہی مسلمان ہیں؟اور کیا ایسے ہی ہوتے ہیں مسلمان،برادریوں میں بٹ جانے والانفرت کی وادیوں میں کھوجانے والا،گھمنڈ ،تکبراورحسدسے لبریز،اسلاف کی پگڑیاں اچھالنے والا،اسلامی تشخص کو مٹانے والا اہل سے عداوت رکھنے والا اور نااہلوں کی جوتیاں سیدھی کرنے والا،تہمت اور غیبت کا رکارڈ قائم کرنے والا،چند ٹکوں میں بک جانے والا،چند ٹکوں کی خاطراپنے بھائی کی عزت اچھالنے والا،وہ کونسا گناہ ہے جس کو یہ مسلمان نہ کرتا ہواور کرنے کے بعد فخر بھی کرتا ہوندامت تو دور کی بات،انگریزی کے چند جملے بولنے کیا آگئے کہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ اور مہذب سمجھنے لگتاہے۔اسلام کا ڈوائڈیشن قدیم اسلام اور جدید اسلام میں کردیا ہے،جی ہاں اسلام بھی دو طرح کا ہوگیا ہے قدیم اسلام کو اولڈ اسلام اورجدید اسلام یعنی ماڈرن اسلام کہاجانے لگا ہے،قدیم اسلامی تعلیمات ،روایات اور اقدار کوپستی اور ذلت کی علامت سمجھا جانے لگاہے اور ان پرعمل پیرا مسلمانوں کو غیر مہذب،دقیانوسی،بنیاد پرست ،لکیر کے فقیر،روڑھی وادی،دہشت گرد ،سخت گیر،مُلّا ازم وغیرہ گھٹیاناموں سے منسوب کردیا گیاہے،مدرسوں اور مسجدوں کو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث مشہور کیاجانے لگا ہے ،مدارس کی تعلیم کو دہشت گردی ،اور بنیاد پرستی کی تعلیم سے تعبیر کیا جانے لگا ہے ،مدارس کوبچوں کی لائف خراب کرنے والے ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والے مشہور کردیاگیا ہے، جنت دوزخ کے ذکر کو دقیانوسی اور قصہ کہانی سمجھا جانے لگا ہے ،قرآن پاک کی تلاوت کو باعث عار ،اور ڈی جے پر تھرکنے کو باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔آئے تجزیہ کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیم اور تہذیب وتمدن نے دنیا کو کیا دیا اور کالج کی لائف مغربی کلچر نے دنیا کو کیا دیا۔
اپنا موقف آپ حضرات کے سامنے رکھنے پہلے یہ عرض کرنا مناسب رہیگاکہ تعلیم کوئی سی بھی ہو اس کا سب سے پہلا کام انسان کو انسانیت سکھانا ہے حیوانیت نہیں ۔ لیکن ہاں اتنا اور عرض کئے دیتا ہوں کہ ہر تعلیم اور ہر زبان کا اپنا ایک نقش اور اثر ہوتا ہے جو بھی انسان جس طرح کی تعلیم اور زبان سیکھتا یا جانتا یاحاصل کرتا ہے اس پر اس کا ایکشن اور ری ایکشن بھی ہوتا ہے ،یعنی اس تعلیم اور زبان کی خصوصیات اور تاثیر سے متأ ثر ہوتا ہے،جس کے اثرات انسان کی عملی زندگی میں نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔مثلاًعربی زبان میں فصاحت اور بلاغت کا عنصرموجود ہوتا ہے، شجاعت اوربہادری ،اور مہمان نوازی اس زبان کا خاصہ ہے ،لہٰذا بلا تخصیص مذہب و مشرب جو بھی عربی زبان سیکھتاہے اس کے اندر یہ صفات پیدا ہونے لگتی ہیں۔اسی طرح سے انگریزی زبان کا معاملہ ہے،اس زبان میں لچک ،صفافیت ، کشش ،اپنائیت ،اختصاربہت ہوتا ہے موقع پرستی ،آزادی،اور خودنمائی،اور تنہائی اس کا خاص وصف ہے،چنانچہ جو بھی انگلش زبان سیکھتا ہے اس کے اندر نزاکت،سیکسی رجحانات،ذہنی آزادی،موقع پرستی ،وقت کی پابندی،خودنمائی ،مذہبی پابندیوں سے فرار،تفکر،گوشہ نشینی،وغیرہ اوصاف پیدا ہونے لگتے ہیں،اسی طرح سے فارسی زبان کا معاملہ ہے اس زبان میں مختلف اوصاف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ایک خاص وصف اور خوبی یہ ہے کہ اس زبان میں حکمت ،اور مذہبی رجحانات،خدا پرستی کا داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کو ہم تصوف سے تعبیر کرسکتے ہیں ،اس لئے جو بھی اس زبان کو سیکھتا ہے یا جانتا ہے اس میں تدبر ،حکیمانہ انداز،مذہبی رجحانات،اور للّٰہیت وصوفیانہ طرز زندگی ضرور ملے گی۔اسی طرح سے ہندی اور اردو زبان کا معاملہ ہے۔ہندی کے بارے میں ماہر لسانیات کے تأثرات یہ ہیں کہ یہ کوئی باقاعدہ زبان نہیں ہے بلکہ سنسکرت کا ہی دوسرا روپ ہے ۔اس کی ادائیگی میں لوچ نہیں بلکہ کچھ سختی پن اور کٹھورتا ہے،جانوروں کی آواز سے مماثلت رکھتی ہے،لیکن سنگیت سے خاص تعلق ہے اور دامن وسیع رکھتی ہے ۔اس لئے جو بھی ہندی زبان سیکھتا ہے اس کے مزاج میں سختی پن آنے لگتا ہے ،لیکن ایک خاص وصف یہ ہے بہت جلد دوسروں سے متأثر ہوجاتا ہے ،اور بھی دیگر خصوصیات ہیں جن کا ذکر محض طوالت کا باعث ہے۔چلتے چلتے تھوڑا اردو زبان کے بارے میں عرض کردوں،اردو زبان عربی زبان کے بعد دنیا کی دوسری زبان ہے جو تمام زبانوں کی خصوصیات اپنے اندر لئے ہوئے ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ اردو لشکری زبان ہے اور لشکر یا فوج کے بارے میں آپ حضرات جانتے ہیں کہ فوجی غدار نہیں ہوتا وطن پرست ہوتا ہے،غریب ہوتا ہے لیکن ضمیر فروش نہیں ہوتا،ڈسپلن والا ہوتا ہے ،بھلائی اور خدمت کا جذبہ رکھتا ہے ،مرنا پسند کرتا ہے لیکن جھکنا پسند نہیں کرتا،بہادر ہوتاہے جو ذمہ داری اس کو سونپی جاتی ہے اس کو بلاخوف و خطر نبھاتا ہے ،مشکل حالات میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ،وقت پرجو بھی مل جائے اس پر قناعت کرلیتا ہے،بغاوت نہیں کرتا سب کو ساتھ لیکر چلتا ہے،امیر یعنی اپنے حاکم کے اشاروں پر کام کرتا ہے ،اور حاکم کا اطاعت گزار اور وفادار ہوتا ہے۔الغرض اردو زبان سیکھنے والے کے اندر فوجی صفات پیدا ہونے لگتی ہیں ،محبت اور وطنیت کا جذبہ پیدا ہونے لگتا ہے،اردو زبان کی مٹھاس تو ضرب المثل ہے ۔
اب چونکہ مسلمان تین زبانوں سے خاص تعلق رکھتا ہے نمبر ایک پر توعربی زبان ہے جو اس کی مذہبی زبان بھی ہے دوسرے نمبر پرفارسی اور تیسرے نمبر اردوزبان ہے ،ان تینوں زبان کی خصوصیات مسلمان کے اندر موجود ہوتی ہیں جیساکہ مذکور ہوا۔لیکن ماڈرن دور میں جب سے مسلمان بھی ماڈرائزیشن یعنی جدیدیت کا شکار ہوااپنی اصلیت کو بھول گیا اور نقلیت کو اپنا لیا’’کواّ چلاہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ ’’دھوبی کا کتّا نہ گھر کانہ گھاٹ کا‘‘آج مسلمانوں کی حالت یہی ہے نہ دین کے رہے نہ دنیا کے اغیار کے طور طریق اپنانے سے اپنی چال بھی بھول گئے ،بلکہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے لگے،نہ خدا ہی ملانہ ہی وصال صنم۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔اغیار کی تہذیب اوران کے کلچر کو اپنانے سے مسلمان اپنا مذہبی تشخص اور کردار کھو چکے ہیںجب تک مسلمان مسلمان رہا محفوظ رہااور اس کا عزت و وقار بھی محفوظ رہا اور دنیا میں بھی اس کا مقام رہابلکہ دنیا اس کی مٹھی میں رہی دنیا پر اس کی حکمرانی رہی یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ مسلمان اغیار کی تشہیر کے مطابق بنیاد پرست اورسخت گیر تھا دنیاکی تمام سہولیات اس کو میسر تھیں دنیا ان کی عزت کرتی تھی دنیا کی تمام ترقیاں ان کے قدموں میں تھی یہ اس وقت تک رہاجب تک مسلمان اسلامی تعلیمات کا پابند عمل رہااور ایک جماعت او رکنبہ کی طرح رہا ،دنیا کی کوئی طاقت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ لیکن دشمن اسلام کی چالوں نے اور خود ان کی اٹکھلیوںنے ان کوسمندر کے ساحل پر لا پھینکا سب جانتے ہیں کہ مچھلی جب تک سمندر کے اندر رہتی ہے محفوظ رہتی ہے اور آزاد رہتی ہے،لیکن جب یہ اچھل کودکرتی ہے توسمندر اس کو ساحل پر پھینک دیتا ہے اورپھریہ شکاریوں کی شکم سیری کا سامان بن جاتی ہے۔
اسلام نے دنیا کو ترقی کافارمولا سمجھا یا تو اسلام دشمنوں کے کان کھڑے ہوگئے انہوں نے دنیا کے تمام شاطر د ماغوںکو مرکز شیاطین میں جمع کیااور اسلام کے خلاف یلغار کردی اور دنیا کو اپنے مکڑ جال میں پھانس کر اسلامی فارمولہ کو ناکارہ بنانے کے لئے،ترقی کا جھانسا دیکر اسلام اور انسانیت کو گلا گھونٹ دیا،اسلام تو متأ ثر نہ ہوا لیکن دنیا والوں کے ساتھ مسلمان ضرور متأثر ہوئے اور انہوں نے بھی اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیااور مغربیت کی تقلید کرتے ہوئے اسلام کا ڈوائڈیشن کردیا اور جدید اسلام ،اور قدیم اسلام میں تقسیم کردیا۔اسلامی تعلیمات میں تبدیلیوں کی کوشش کی جارہی ہے قرآنی احکامات کی نئی تعبیرات پیش کی جاری ہیںجس کا نتیجہ یہ نکلا جس اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی ان کی عصمت وعفت کی حفاظت کی سماج میں عورتوں کے وقار کو بلند کیا ،زناکاری فحاشی کا خاتمہ کیا ،دنیا میں امن چین کا ماحول پیدا کیا ،ملازمین اور مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی اور اس کا ایک قانون مقرر کیا،اساتذہ کے وقار اور ان کے مقام کو بلند کیا اور باپ سے زیادہ عزت واحترام کا درجہ دیا،طلبہ کو مؤدب اور مہذب بنایا،ماں باپ کے حقوق اور عزت واحترام کو جنت میں دخول کا ذریعہ قرار دیا،جانوروں کے حقوق متعین کئے بلاوجہ ان کو تکلیف دینا گناہ قرار دیا،حتیٰ کہ پیڑ پودوں کی حفاظت کا بھی اسلام نے ایک ضابطہ مقرر کیا،ضعیفوں ،مسکینوں ،بیماروں،اور لاچاروں کی مدد کرنے کے لئے زکوٰۃ اور صدقات کی تاکید کی اور باقاعدہ اس کاایک قانون مقرر کیا، بے روزگاری ختم کرنے کااسلام میں مستقل بندوبست ہے ،سود خوری اور ذخیرہ اندوزی اسلام میں جرم ہے ،بہرحال جب تک اسلام اپنے قدیم روپ میں یا اپنے اصل انداز میں رہا دنیا مامون رہی ،یاد رہے سونا سونا ہی رہتا ہے وہ قدیم ہو یا جدید قدیم ہونے سے اس کی قدر بڑھتی ہے گھٹتی نہیں۔یہ تو ہے اسلامی تعلیمات کا اثر اور اصول جس نے انسان کو انسانیت سکھائی،اب دیکھتے ہیں کہ جدیدیت نے انسان کو اور اس دنیا کو کیا دیا۔
جدید یت اور مغربی تہذیب اور تعلیم کاسب سے برا اثر یہ ہوا کہ انسان میں انسانیت نہیں رہی ،یہ انسان حیوان سے بھی بدتر ہوگیا،زناکاری فحاشی عام ہوگئی باپ بیٹی کی عزت کو تارتار کرتا ہے ،بھائی بہن کی عزت سے کھلواڑ کرتا ہے ،پوری فیملی ایک ساتھ گندے مناظر والی فلمیں اور پروگرام دیکھتے ہیں،لڑکیاں، بیٹیاں ،بہنیںنیم لباس ہوتی جارہی ہیں ماں باپ اور بھائی کے سامنے پینٹ شرٹ ،اور ٹی شرٹ پہنتی ہیں ،تنگ لباسی کا یہ عالم کہ جسم کا ہرحصہ نماں نظر آتا ہے،بھائی بہن ایک ساتھ فحش ڈانس کرتے ہیں ،لڑکیوں کے کئی عدد بوائے فرینڈ ہوتے ہیں جن کو لڑکیاں اپنے ماں باپ سے بوائے فرینڈ کے طور پر متعارف کراتی ہیں،اور ماں باپ کے سامنے ہی کمرے میں تنہا وقت گزارتی ہیں ،یہی حال لڑکوں کا ہے ان کی بھی کئی عدد گرل فرینڈ ہوتی ہیں،یہی حال ان ماڈرن اسکولوں کا ہے ٹیچر طالبہ سے جسمانی تعلق قائم کرتا ہے،طالبات اساتذہ کو دعوت عیش پیش کرتی ہیں ،اسکول کے طلبہ استاذ کی پٹائی کرتے ہیں، اب یہ قانون ہے ٹیچر بچوں کو یا اسٹوڈنٹ کو نہیں ڈانٹ سکتا مارنا تنبیہ کرنا تو بہت دور کی بات،ماں باپ کا احترام ختم ،سود خوری اور ذخیرہ اندوزی ایک فن بن چکا ہے ۔ان تمام باتوں کا اثر سماج کے ہر طبقہ پر پڑا ہے خاص کر مسلمانوں پر اور اسلام پر،مسلمانوں میں اسلامی تشخص ختم ہوتا جارہا ہے شعار اسلام کی کھل عام توہین کی جاری ہے،اب حالات یہاں تک خراب ہوچکے ہیں کہ جتنا مسلمانوں نے اسلام کو نقصان پہنچانا شروع کیا ہے اتنا غیروں نے نہیں،اب گناہ گناہ نہیں رہے بلکہ ان کا نام آرٹ اور لائف اسٹائل بن گیا ہے۔ع
گلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدہ میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
دشمن اپنی چال میں کامیاب نظر آرہا ہے ،مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے ،ان کو امیر اور غریب میں بدل دیا گیا ہے مہذب اور غیر مہذب میں تقسیم کردیا گیا،ان کو بھی اونچی ذات اور نیچی ذات میں تقسیم کردیا گیا،سیڈول کاسٹ میں بانٹ دیا گیا ہے ،کیا کوئی بتا سکتا ہے اسلام نے مسلمانوں کی کوئی ذات مقرر کی ہے ہرگز نہیں کبھی نہیں بتا سکتے، مسلمانوں کی ایک ذات اورایک مذہب ہے اور وہ ہے ’’محمدیﷺ‘‘ اور مذہب ہے اسلام۔اسلام ذات برادری کا قائل نہیں ،اسلام نفرتوں کو ختم کرتا ہے نفرتوں کو جنم نہیں دیتا،بڑھاوا نہیں دیتا،اسلام اتحاد کی تعلیم دیتا ہے ،اپنی صفوں میں انتشار پھیلانے کو سختی سے کچلتاہے ،اسلام کاپورانظام اجتماعیت کی دعوت دیتا ہے،خود غرضی اسلام میں حرام ہے لیکن اب خود غرضی کا یہ عالم ہوچکا ہے مسلمان کومسلمان کے خلاف استعمال کیا جا رہاہے ،مسلمانوں کو فرقوں ،مسلکوں،اور برادریوں میں تقسیم کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جارہا ہے ،اب اس سے بھی خطرناک گیم اورکھیل یہ کھیلاجارہا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اور جدید ترین گروپ میں تقسیم کیا جارہا ہے ،ان خود غرض اور مفاد پرستوں نے مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے لئے اسلام اور مسلمانوںکی ریڑھ عالموں کو بھی ایک الگ گروپ میں بانٹ دیا ہے ،اور عجیب کشمکش والا ماحول پیدا کردیا ہے،اگر یہ علماء کرام یکسو رہیں یعنی سیاست سے دور رہیں تب یہ کہا جاتا ہے کہ ان عالموں نے قوم کو کٹوادیا،اور اگر سیاست میں حصہ لیں اور نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہ ہو تب بھی ان عالموں کو نشانہ بنایاجاتا ہے ،جیسا کہ حالیہ الیکشن میں ہوا،علماء کرام نے مسلمانوں کو ایک جٹ ہوکر اجتماعی طور پر ووٹنگ کرنے کی ترغیب دی لیکن غیب کی خبر تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے،نتائج برعکس ظاہر ہوئے،اب نئے نئے چہرے نئے نئے خیالات سامنے آنے لگے ہیں جہاں تمام سیکولر پارٹیوں کی نفی کی جارہی ہے وہیں عالموں کے خلاف بھی ذہن بنایا جارہا ہے تاکہ نیامیدان اور پرانے کھلاڑی نئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر نئی حکمت عملیوں کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات سے پھر سے کھلواڑ کریں اور مسلمانوں کو کسی قابل بھی نہ چھوڑیں،مسلمانوں کو ان کے عالموں سے اتنا بد گمان کردیا جائے کہ علماء گوشہ تنہائی اختیار کرلیںاور قوم کو ان مفاد پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے،اور ایسا ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ جب رہبران قوم و ملت کو ہی چور اور خازن سمجھا جانے لگے گا ،اور نااہلوں کو قائداور نجات دہندہ سمجھاجانے لگے گا،مسلمانوں کو دین سے علماء سے بیزار کردیا جائے گا،قرآن پاک کو الماری اور طاق کی زینت بنادیاجائیگا ،بہرحال اے مسلمانوں خواب خرگوش سے بیدار ہوجاؤ دشمن قیامت کی چال چل چکا ہے،اب بھی موقعہ ہے سنبھلنے کا سنبھل جاؤ یاد رکھو قیامت دستک دے چکی ہے ۔ اے اللہ ہماری حفاظت فرما۔فقط والسلام


0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.