Saturday, 23 March 2013

23:10
گزشتہ سے پیوستہ
ترجمہ: اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم وحوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے کیا) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔
اس طرح اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے ،اسلام یہ بات بھی تسلیم کرتا ہے کہ افراد اور گروہوں کو بعض بنیادی حقوق شہری آزادیاں ہونی چاہئیں اس بنیادی بات کی حد تک اسلامی تصور اور موجودہ جمہوریت باہم متفق ہیں ۔جہاں تک اسلام اورجمہوری نظام کا تعلق ہے ،وہ درج ذیل ہے ۔
حرمت جان یا جینے کا حق ،عزت آبرو کی حفاظت ،خصوصاً ناموس خواتین کی حفاظت ، بنیادی ضروریات زندگی کی حفاظت و ضمانت،عدل و انصاف کے حصول کا حق ،نیکی میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون کا حق،مساوات کا حق ،ظالم کی اطاعت سے انکار معصیت سے اجتناب ، شخصی آزادی،نجی زندگی کا تحفظ،اخلاقی حقوق کی پاسداری، اظہاررائےکی آزادی ،مذہبی آزادی ،مسلک کی آزادی ۔عبادات کی آزادی وغیرہ یہ سب وہ اصل ہیں جو جمہوریت کے اصول ہیں ،یہاں تک اسلام اور جمہوریت میں کوئی فرق نہیں۔
اسلام کا شورائی (جمہوری)نظام:
نظام کی اہمیت اور تقدس کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس قرآن مجید کی ایک مکمل سورت کا نام ہی ”سورة الشوریٰ“ ہے اور اس میں مسلمانوں کے شورائی (جمہوری) طرزِ حکمرانی کو عبادات اور اخلاق جیسے اوصافِ مومنانہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ کسی کی رائے سے اختلاف رکھنے والے کو مکمل طور پر برداشت کرنا‘ اس کی بات پر توجہ دینا‘ یعنی حزب اختلاف (اپوزیشن) کو مطمئن کرنا اور اکثریت کے فیصلے کا پورا پورا احترام کرنا اور از روئے قران و سنت اور آثارِ صحابہ واجب ہے۔ جبکہ سورة آلِ عمران کی(۱۵۹)نمبر آیت میں مشورہ لینے کے حکم کے ساتھ عزم اور توکل کے حکم میں بھی دراصل اشارہ اسی بات کا ہے کہ اکثریت کی رائے سے جو فیصلہ طے ہو جائے اسے عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کر دیا جائے اور نتائج کے سلسلے میں اللہ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کیا جائے اور یہی اسلامی جمہوریت کا امتیاز اور مطلوب و مقصود بھی ہے۔ اگر اسلام کا منشا قیام حکومت یا سیاسی نظام نہ ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے خلفائے راشدین ایک منفرد حکومت قائم کر کے دنیا بھر کی فتوحات اور تسخیر کے لیے قافلہ در قافلہ نہ نکلتے اور بادشاہانِ وقت کے ساتھ خارجی روابط اور دعوتِ اسلام کے لیے سُفراءاور رسائل نہ ارسال کرتے اور نہ ہی امت کو بالخصوص اصولِ حکمرانی تلقین فرمائے جاتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام جن سیاسی قدروں اور جس طرزِ حکمرانی کا علمبردار ہے وہ نہ صرف جمہوری اقدار اور جمہوری طرز کی حکمرانی ہے بلکہ وہ عصرِ حاضر کی صدارتی و پارلیمانی جمہوریت سے افضل اور انسانیت کے لیے زیادہ نفع بخش بھی ہے۔ اسلام کی جمہوری قدریں دراصل عادلانہ قدروں سے عبارت ہیں اور یہ عدل کو تقویٰ سے وابستہ کرتا ہے۔ عدل دراصل احترامِ آدمیت مساوات اور خدمت انسانیت کی زندہ و نمائندہ علامت ہے اسی لیے اسلام جن جمہوری اقدار کو پروان چڑھانا چاہتا ہے ان میں عدل و انصاف کو اولیت حاصل ہے۔ چنانچہ اسلام کی (قرآن میں) اس ضمن میں کچھ خاصی اصطلاحات ہیں جنہیں ہم اسلامی اصطلاحاتِ جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں۔ ان اصطلاحات میں (علماءکونسل) ایتمار (باہمی مشورہ)،خلیفہ (جائز نمائندہ) ، استفتاء(استصوابِ رائے یا ریفرنڈم)، مبایعت (عوامی تائید) شوریٰ (قومی اسمبلی) وغیرہ۔
الغرض ہر ملک کے جمہوری نظام کی مختلف ضروریات اور کیفیات ہوتی ہیں ۔جن کو باہمی مشورے سے طے کیا جاتا ہے۔
ہندوستان اور جمہوریت:
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام ہے جس میں مختلف رنگ ونسل کے اور مختلف زبانوں کے بولنے والے،مختلف مذاہب والے ،اور مختلف المسلک افراد رہتے ہیں ۔یہاں کے دستوری آئین کے مطابق سب کو ہرطرح کی آزادی ہے خصوصاً مذہبی آزادی ،اس ملک کی یہ خاص صفت اور خوبی ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے ،ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ،حتیٰ کے ان کی مذہبی عدالتیں بھی ہیں، جیسا کہ مسلمانوں کی شرعی عدالتیں ،اور جگہ جگہ شرعی دارالافتاء ہیں ،حکومت ان میں کوئی مداخلت نہیں کرتی،غرض کہ ہر انسان خصوصاً مسلمان مسلم ممالک کی بنسبت ،ہندوستان میں زیادہ پر امن اور آزاد ہے۔اور یہاں کا باعزت شہری ہے ، اس ملک کے صدور بھی مسلمان ہوئے ہیں ۔اس اعتبار سے مسلمانوں کا اس ملک کے قوانین سے ہم آہنگ ہوجانے میں کوئی قباحت نہیں۔
ووٹ کی شرعی حیثیت:
ووٹ : انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کے ذریعہ سے ایک ووٹر الیکشن میں کھڑے ہوئے امیدوار کے بارے میں گواہی دیتا ہے کہ میرے نزدیک یہ امید وار قوم و ملت کا سچا خادم اور ہمدردہے اور ملک کا بہی خواہ ہے ،اور میری دانست کے مطابق یہ امیداوار ایماندار او دیانت دار ہے ،اس لئے میں اس کو ووٹ دے رہا ہوں، یعنی اس کے حق میں گواہی دے رہا ہوں کہ یہ معتمد ہے۔
ووٹ کی شرعی حیثیت اور اکابر علماء کرام:
ہمارے اکا برین علماء کرام میں والدی حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ ، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اور حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ اور عصری علماء کبار میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی نے الیکشن میں کسی امیدوار کوووٹ دینے کی جو حیثیا ت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ووٹ بحیثیت مشورہ: ووٹ کی ایک حیثیت مشورہ کی ہے جسکے ذریعہ ایک ووٹر سے یہ مشورہ لیا جاتا ہے کہ یہ امیدوار جو ملکی اقتدار میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے کیا اس کا انتخاب ملک قوم وملت کے حق میں مفید رہے گا یا نہیں۔ شریعت کی رو سے جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کی حیثیت امین کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ ( النساء :۸۵)
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’الْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَن‘‘ (الحدیث) أخرجه أبو داود والترمذي وحسنه وابن ماجه وإسناده صحيح
جس سے مشورہ طلب کیا جائےوہ اس کا امین ہوتا ہے
اس کا مطلب یہ ہےکہ مشورہ دینےوالے کو مشورہ اپنی یا کسی دوسرے کی غرض کو شامل کئے بغیر دینا چاہئے اور اس مشورہ کو بطور امانت اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہئے اور ہر کسی پر اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔
وو ٹ بحیثیت وکالت: ووٹ کی شرعی حیثیت وکالت کی ہے ،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس امیدوار کو میں ووٹ دے رہا ہوں میرےکے نزدیک اس امید وار میں وکالت کی اہلیت ہے اور قابل اعتماد اور با صلاحیت ہےاس لئے میں اس کو اپنی جانب سےو کیل اور نمائندہ منتخب کرتا ہوں ،لیکن یہ وکالت صرف اس کےشخصی حق کے ساتھ متعلق نہیں ہے ،اور اس کا نفع نقصان صرف ووٹر کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک وقوم کےمفادات اس سے وابستہ ہو تے ہیں اگر کسی وجہ سے یہ منتخب نمائندہ خائن ہوجائے یا نا اہل ثابت ہوجائے تو اس حق تلفی کرنے کانمائندے کو ہوگا وہیں اس ووٹر کو بھی ہوگا۔
وو ٹ بحیثیت شہادت وگواہی:
ووٹ کی ایک حیثیت گواہی اور شہادت کی بھی ہے گویا ووٹر یہ گواہی دے رہا کہ جس امیدوار کے حق میں میں ووٹ دے رہا ہوں وہ اس کا اہل ہے ،اور علم ودانش میں یہ شخص دیانت دار محنتی اور ایماندار ہے ملک وقوم کی خدمت دیانت داری سے کریگا۔اس لئے میرے نزدیک یہ شخص ملک کا نمائندہ بننے کا اہل ہے۔
وو ٹ بحیثیت سفارش و شفاعت:
شرعی نقطہ نظر سےووٹ کی ایک حیثیت شفاعت وسفارش کی بھی ہے ،گویا ایک ووٹر یہ سفارش کررہاہے کہ جس امیدوار کو میں ووٹ دے رہا ہوں یہ اس ووٹ سچاحق دار ہے اور اس عہدہ کاصحیح اہل ہے اس لئے اس کو ملک وقوم کی خدمت کا موقع دیا جائے۔
تنبیہ: واضح رہے کہ جس آدمی کے بارے میںسفارش کی جارہی ہے اس کے بارے میں پہلے اچھی طرح تحقیق کرلی جائے کہ وہ اس عہدہ کا اہل بھی کہ نہیں اس وجہ سے اگر وہ نا اہل نکل گیا تو اس کی ذمہ داری شرعاً ووٹر کی بھی ہوگی اور ووٹر برابر کا گناہ میں معاون مانا جائیگا ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَـنَۃً يَّكُنْ لَّہٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا۝۰ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئَۃً يَّكُنْ لَّہٗ كِفْلٌ مِّنْھَا۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا۝۸۵ [٤:٨٥]
ترجمہ: جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اور دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے فرمایا ہے
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]
ترجمہ : اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے
بالکل واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمادی دیکھو نیک کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کردیا کرو لیکن گناہ والے کاموں شرکت مت کرنا اگر ایساکروگے تو اس کا گناہ تمہارے ذمہ بھی ہوگا اور یاد رکھو اللہ سخت عذاب والا ہے۔ اس لئے ووٹر کے لئے ضروری ہے کسی امیدوار کی حمایت کرتے ہوئےیہ پہلو سامنے رہنا چاہئے۔اور امید وار کے بارے میں اچھی طرح سے تصدیق کر لینی چاہئے۔
ووٹ ایک شرعی حق ہے :
علماء اور فقہاء نے فرمایا ہے’’ ووٹ دینا ایک شرعی ذمہ داری ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہےکیونکہ ووٹ کی حیثیت گواہی کی ہے اور گواہی سے بچنا گناہ ہے‘‘ (مفتی عزیزالرحمٰن ؒبجنوری)
انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے۔ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور جھوٹ بولنابھی حرام ہے، اس میں محض ایک سیاسی ہارجیت اور دنیا کا کھیل سمجھنابہت بڑی غلطی ہے، آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے، علم و عمل اور دیانتداری کی روح سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے۔ جس کام کیلیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔(مفتی شفیع صاحبؒ)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.