Saturday, 23 March 2013

23:14
مستدلات:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۲۸۳ۧ [٢:٢٨٣]
ترجمہ: (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
قرآن پاک میں جہاں شہادت کو چھپانے کی ممانعت ہے اور گناہ ہے ، وہیں سچی گواہی اور شہادت کی تاکید بھی فرمائی ہے۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸ [٥:٨]
ترجمہ : اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو بنا کسی افراط وتفریط کے حق کی آواز بلند کرنی چا ہئےاور حق بات کہنے میں اس کو جھجک اور خوف نہیں ہونا چاہئے،اس بارے میں علامہ شبیر عثمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ’’عدل وانصاف کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ بنا کسی افراط تفریط کےوہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے ،عدل وانصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہئے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عدوات بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کوئی پلہ نہ جھکا سکے (تفسیر عثمانی ص:۱۴۴)
ووٹ نہ دینا خیانت ہے:
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے وہ ڈالنا یا شرعاً واجب ہے اس طرح ووٹ نہ دینا ایک خیانت اور نا انصافی اور شرعی جرم ہے بعض لوگوں کا یہ گمان ہوتا ہےکہ نا اہل کو ووٹ دینا معصیت اور گناہ ہے بیشک ایسا سوچنے میں وہ برحق ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ امیدوار نا اہل ہے اور یہ اہل ہے ۔بغیر تحقیق کئے کسی کو نا اہل کہنا مناسب نہیں،البتہ چھان پھٹک کرنا تحقیق کرنا اس ووٹر کی شرعی اور قومی وملی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح امیدوار کا پتہ لگائے ،اس وجہ سے کہ اگر ہماری لا پرواہی کی وجہ سے کوئی غلط آدمی منتخب ہوجائے جو بد دیانت اور خائن فسادی ہو ظالم ہو غیر عادل ہو تو اس کی ذمہ داری بھی اس ووٹ نہ ڈالنے پر بھی عائد ہوگی اور وہ بھی اس ظلم میں برار کا شریک مانا جائیگا، جیساکہ قرآن پاک نے فرمایا:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]
ترجمہ :اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے ۔
اس لئے نیکی کے کاموں میں مدد کرنی چاہئے اور برائی کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے۔واضح رہے کہ ووٹ استعمال کا صحیح استعمال نہ کرنا یہ کتمان شہادت ہے اور ووٹ کا غلط استعمال کرنا زُورہے جس شریعت میں شہادت زور حرام ہے اسی طرح کتمان شہادت بھی حرام ہے۔
فرمان رسالت ماٰب ﷺ ہے :
عن ابی بردۃ عن ابیہ عن النبی ﷺ قال من کتم شہادۃ اذا دعی الیھا کمن کان شھدالزور(المعجم الاوسط ج:۴ص:۲۷۰)
ترجمہ: حضرت ابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو شہادت کے لیے بلایا جائے پھر اسے چھپائے اور شہادت نہ 
دے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا(گناہوں میں دونوں برابر ہیں )۔
اس لئے ووٹر کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چا ہئے اور اہل امیدوار کو ووٹ دینا چاہئے۔
ووٹ دینا ایک سیاسی اور ملی فریضہ ہے:
ووٹ دیناسیاسی اور ملی اعتبار سے بھی نہایت ضروری ہے کیوں کہ اگر مسلمان الیکشن میں حصہ لینا بند کردیں تو قومی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کی پوزیشن بہت ڈاؤن ہوجائے گی اور ان کا کوئی پرسان حال بھی نہ رہے گا۔جس کا سیدھا سیدھا فائدہ مسلم مخالف قوتوں کو ہوگا،اور ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان ملک کی نمائندگی کرنا بند کردیں اور اور مسلمان تیسرے درجہ کے شہری بن جائیں اور ملک میں ان کا وزن اور ان کی اہمیت ختم ہوجائے۔
اور یہ سوچنا کہ اگر ہم نے ایک ووٹ نہ دیا تو ایک ووٹ سے کیا فرق پڑنے والا ہے ؟یہ سوچ انتہائی بچکانہ اور نہ سمجھی کی علامت ہے قوم وملت کے لئے نہایت خطرناک ہے، اس لئے کہ اگر ہر شخص یہی سوچنے لگے تو پھر پورے ملک میں ایک ووٹ کا بھی صحیح استعمال نہ ہوسکے گا ،معلوم رہے ہماراملک ہندوستان واحد ایک ایسی جمہوریہ ہے جہاں ووٹوں کی شماری نہایت امانت ودیانتداری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ایک ووٹ بڑا قیمتی ہوتا ہے پورے ملک کی قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ اس میں ایک جاہلانہ غفلت ہے ، ذراسی بھول چوک یا بددیانتی پورے ملک وملت کو تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے اس لئےہمارے مروجہ نظام الیکشن میں ہر ووٹ نہایت قیمتی اور ملک کی قسمت کو سنوارنے اور بگاڑنے کے لیے فیصلہ کن ہے لہٰذا ہر فرد کا شرعی ،اخلاقی قومی اور ملی فریضہ ہے کہ اپنے وہ ووٹ کو نہایت تندہی اور ایمانداری سے استعمال کرے اسی میں سب کی بھلائی و عافیت ہے (ملخصاً ازاسلام اور سیاست حاضرہ ص۹ فقہی مقالات ج۲ص۲۹۲)
الیکشن میں از خود امیدوار بننے کا حکم شرعی :
شرعی اعتبار سے از خود کسی منصب یا عہدہ کا طلب کرنا ایک مذموم فعل ہے رسول اکرم ﷺنے از خود عہدہ ومنصب طلب کرنے ،اس کے لئے سفارش کروانے اور دل وجان سے اس کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے ، قرآن وسنت کا عام حکم بھی یہی ہے کہ از خود کسی سرکاری عہدے اور منصب کو اپنے لیے طلب کرنا جائزنہیں ہے،اور شریعت کی نظر میں ایسا شخص مطلوبہ عہدے کا اہل نہیں ہوتاہےحضور ﷺ کا یہ معمول گرامی تھا اگر کوئی از خود کسی عہدہ یا منصب کی خواہش کا اظہار کرتا ،تو آپﷺ ایسے شخص کو آپ عہدہ دینے سے منع فرمادیتے تھے۔
حدیث شریف میں ہے:
عن أبی موسیٰ قال دخلت علی النبیﷺ أنا ورجلان من بنی عمّی فقال أحد الرجلین یارسول اللہ!أمّرنا علی بعض ما ولاک اللہ عزوجل وقال الاٰخر مثل ذالک فقال: إنا واللہ لانولی علی ہذا العمل أحدا سألہ ولا أحد احرص علیہ۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب النہی عن طلب الامارۃ والحرص علیھا (ج۲ص۱۲۰)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اور میرے چچا کی اولاد میں دو شخص نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور ان میں سے ایک نے کہا یا رسول اللہ!اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو تمام مسلمانوں اور روئے زمین کا حاکم بنایا ہے ،مجھ کو بھی کسی کام یا کسی جگہ کا والی وحاکم مقرر فرمادیجیے، اور دوسرے نے بھی رسول اللہ ؐسے اسی طرح خواہش کا اظہار کیا ہے ،رسول اکرم ؐ نے فرمایا خدا کی قسم ہم اس شخص کو کسی کا والی اور حاکم نہیں بناتے جو اس کا از خود طالب ہوتا ہے اور نہ اس شخص کو کوئی ذمہ داری اور عہدہ دیتے ہیں جو اسکا حرص اور خواہش رکھتا ہو۔
ایک دوسری حدیث پاک میں ہے:

عن أبی ذر قال قلت یارسول اللہ !ألاتسعملنی ؟قال فضرب بیدہ علی منکبی ،ثم قال یا اباذر!انک ضعیف وأنہا امانۃ وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ إلامن أخذہا بحقہا وادی الذی علیہ فیہا وفی روایۃ یا ابا ذر! إنی اراک ضعیفا وانی احب لک ما احب لنفسی لا تامرن علی اثنین ولاتولین مال یتیم۔
(مسلم الامارۃ باب کراہۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ ) ( ج۲ص۱۲۰)

حضرت ابوذر غفاری ؓفرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم ﷺسے عرض کیا یارسول اللہ !آپ مجھے کسی جگہ کا والی اور حاکم کیوں نہیں بنادیتے ؟یہ سن کر آپﷺ نے اپنا دست مبارک ازرہ شفقت ومحبت میرے مونڈھے پر مارا اور فرمایا اے ’’ابو ذر‘‘! تم ناتواںاور کمزورہو اور یہ حکومت وامارت ایک عظیم امانت ہے جس کی ادائیگی نہایت لازم وضروری ہے ورنہ تو یہ حکومت وسیادت قیامت کے دن باعث رسوائی وشرمندگی ہوگی الا یہ کہ اسکا حق پورا ادا کردے ۔ایک اور روایت میں یوں ہے کہ اے ابو ذر! میں تم کو ناتواںدیکھتا ہوں تم حکومت وامارت کے بارگراں کا تحمل نہیں کر سکو گے اور میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند کرتا ہوں جو خود اپنے لئےپسند کرتا ہوں لہٰذا تم کسی دو آدمی کاکبھی امیر وحاکم نہ بننا اور نہ کسی یتیم کے ما ل کی نگرانی قبول کرنا ۔
مذکورہ بالا تمام روایات سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو عہدہ ومنصب کے لئے پیش کرنا ،اور قیادت وسیادت ، حکومت وامارت کی ذمہ داری کےلئے عوام میں خود کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا ،انتخابات میں خود امید وار بننا اور عوام کی ذہن سازی کرنا کہ مجھے منتخب کرو ، اور یہ اظہار کرنامیں اس عہدے کا مستحق ہوں ،اس کے واسطےاشتہار بازی کرنا ،اپنی مدح سرائی کرنا ،اور مخالف پارٹی کی برائی کرنا کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے میںہی اس کا اہل ہوں ،میں ہی آپ کے ووٹ کا صحیح حق دار اور مستحق ہوں،لہٰذا مجھے ہی ووٹ دو ،یہ طریقہ شریعت کے خلاف ہے، اور قرآن وسنت کے بالکل مخالف ہے۔اس لئے الیکشن میں اپنے آپ کونمائندہ بنا کر پیش کرنا ازروئے شرع درست نہیں ہے۔
مصلحتاً طلب منصب کا حکم:
ازخود طلب منصب ایک مذموم اور نا پسندیدہ عمل ہے لیکن استثنائی صورتوں میں عہدہ اور منصب کی درخواست مباح ہے جہاں اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگرکوئی نا اہل الیکشن میں کھڑا ہوگیا تویہ نااہل اور ظالم اس پر قبضہ کرکے لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائےگا ، ملک وملت کو نقصان پہنچائےگا ،اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس عہدہ منصب کے لائق واہل بھی نہیں ہے ،تو ایسی صورت میں ازخود عہدے کا طالب ہونا اور قوم وملک کا نمائندہ بن کر کھڑے ہونااور لوگوں سے ووٹ کا مطالبہ کرنا اس کی شرعاً گنجائش ہے ،بشرطیکہ محض اقتدار وکرسی اور جاہ منصب کے حصول کے لئے نہ ہو بلکہ قوم وملت کی خدمت کے جذبے اور سماج ومعاشرہ میں پھیلے ہوئے مفاسد کو ختم کرنے کے ارادے سے ہو ،اور اس کے اندر بھی یہ شرط ہے کہ اپنے حریف پارٹی کی غیبت ،سب وشتم اور عیب کا ذکر اور تشہیر نہ ہو ۔
الغرض مذکورہ حالات میں اگر کوئی شخص از خود عہدہ طلب کرے تو جائز ہے ، اور اس کا ثبوت حضرت یوسف علیہ السلام کے ’’قول اجعلنی علیٰ خزائن الارض إنی حفیظ امین ‘‘سے بھی ہوتا ہے،حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے ایسے وقت میں عہدے کا مطالبہ کیا کہ ان کو یقین تھا کہ اگر میں اس منصب کو نہ لوںگا تو کوئی دوسرا نااہل آدمی اس پر مسلط ہو جائیگا اور لوگوں کو تکلیف پہنچائیگا ،اور ملک میں قحط سالی کا دور آنے والا ہے ،بنابریں آپ نے عہدہ کا مطالبہ کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس منصب کے لائق وفائق آدمی موجود نہ ہواور اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگروہ اس منصب پر کنٹرول نہیں کرے گا تو لوگو ں کو انصاف نہیں مل سکے گا ،لوگوں کو تکلیف وپریشانی ہوگی اور لوگ ظلم وستم کے شکار ہوں گے تو ایسے موقع پر خود 

عہدہ طلب کرنا جائز ہے ،اور استثنائی صورت تمام مناصب میں ہے خواہ امارت ہو ،یا انتظامی منصب ہو،یا قضاء کا منصب ہو یا اسمبلی اور ممبر پارلیمینٹ کا منصب ہو ،جب ان مناصب کے لیے کوئی دوسرا شخص اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والاموجود نہ ہوتو اس صورت میں خود سے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ طلب کیا۔ (ملخصاً ازفتاویٰ عثمانی ج۳ص۵۰۷،)اور اس حدیث پاک سے ان علماء کرام نے استدلال کیا ہے:
واستدل بہذالحدیث من منع طلب الامارۃ والقضاء مطلقا،ویدل علی خلاف ذالک قول اللہ تعالی حکایۃ لسیدنا یوسف علیہ السلام ،،اجعلنی علی خزائن الأرض إنی حفیظ أمین (سورۃ یوسف رقم الایۃ ۵۵)
وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من طلب قضاء المسلمین حتی ینالہ ثم غلب عدلہ جورہ فلہ الجنۃ ،ومن غلب جورہ عدلہ فلہ النار اخرجہ أبو داؤد عن أبی ہریرۃ۔وسکت علیہ ہو والمنذری ،وسندہ لامطعن فیہ (نیل الاوطار ج۸ص۴۹۸)
وکذالک قولہ علیہ السلام لا حسد إلافی اثنتین رجل اٰتاہ اللہ مالا فسلطہ علی ہلکتہ فی الحق واٰخر اٰتاہ الحکمۃ فہو یقضی بہا ویعلمہا۔ اخرجہ البخاری وغیرہ عن عبداللہ ۔
ومن أجل ہذہ الدلائل اختار أکثر الفقہاء التفصیل،فإن کان الطالب غیر أہل لذالک المنصب من الامامۃ او القضاء فإن طلبہ محظور مطلقا ،وکذالک إذا کان الطلب لحب المال والرئاسۃ والشرف فإنہ منہی عنہ علی الاطلاق ،وأما إذا کان للإصلاح بین الناس وإقامۃ العدل فلیس بمنہی عنہ۔
(تکملۃ فتح الملہم ج۳ص۲۴۳،۲۴۴,وہٰکذا تستفاد من عبارۃ إعلاء السنن ج۱۵ص۴۴)

ترجمہ: اور امارت وقضاء کے عہدہ کی طلب کی مطلقا ممانعت پر بعض اہل علم نے اس حدیث پاک سے استدلال کیا ہے ،جب کہ باری تعالی کا ارشاد پاک جو حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کو نقل کرتے ہوئے آیا ہے کہ مجھے ملک مصر کا وزیر خزانہ بنا دیجیے اس لئے کہ میں اس کی حفاظت کرنے والا اور جاننے والاہوںاس کے خلاف دلالت کرتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یوسف علیہ السلام ایک نبی ہیں اور نبی کےلئے کسی کی اقتداء جائز نہیں کیونکہ نبوت ایک مہتم بالشان مقام ہوتا ہے دنیا کا بڑا سےبڑا عہدہ اور مرتبہ بھی ،مقام ومرتبہ نبوت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ،تو ظاہر ہے اتنی عظیم شخصیت ایک ادنیٰ کی اطاعت کیسے کرسکتی تھی اس لئے انبیاء کرام ہی امارت اور اقتدار کے زیادہ مستحق اور اہل ہوتے ہیں۔
اور رسول کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جس نے مسلمانوں کے قضاء کو طلب کیا پھر اس کو حاصل کرلیا ،پھر اس کا عدل وانصاف اس کے ظلم وجور پر غالب رہا تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کا ظلم وستم اس کے عدل وانصاف پر غالب رہا تو اس کے لیے جہنم ہے ، اس حدیث کو امام ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہؓ کی سندسے نقل کیا ہے،اور ابو داؤد اور علامہ منذری نے اس پر سکوت فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
اسی طرح رسول پاکؐ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد وغبطہ صرف دو چیزوں میں جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا پھر اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کے لیے مسلط کردیا۔دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت ودانائی سے سرفراز کیا اوروہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھلاتا ہے اس حدیث کو امام بخاری نے حضرت عبداللہ کی سند سے تخریج کی ہے ۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.