Sunday 7 February 2016

04:56

جھوٹے خوابوں کی جھوٹی تعبیر

مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
خوشی ،غم،غصہ،پیار محبت ،نفرت،تعریف،حسد،جوش وجذبہ ولولہ ،عقیدت اور اسی طرح کی دوسری کیفیات جذبات کے زمرے میں آتی ہیں،اس دنیا میں کوئی آدمی ہی ایسا ہوگا جو جذبات سے عاری ہوایک دودھ پیتا بچہ بھی جذبات رکھتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی کچھ حالات ایسے بھی بن جاتے ہیں جہاں جذبات کی قربانی دینی پڑتی ہےاور کچھ وقت کے لئے جذبات کو کسی تھیلے میں بند کرکے کسی مقفل الماری میں رکھنا پڑجاتا ہے۔اسی طرح کے کچھ حالات اس وقت عالم اسلام میں پیدا ہوگئے ہیں جہاں جذبات کو کسی سرد خانہ میں ڈال کر خالی الذہن ہوکر ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
جب ہم عالم اسلام کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد روئے زمین پر پھیلے ہوئے اسلامی ممالک سے ہے ۔لیکن جب ہم ان ممالک کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کے اپنے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں ،ان کا اسلامی تحفظات یا مسلمانوں کےمفادات سے کوئی مطلب نہیں ہوتایہ ممالک اپنے تحفظات کے لئے اسلام مخالف اور مسلم دشمن طاقتوں سے ہاتھ ملانے میں کچھ جھجھک محسوس نہیں کرتے ۔آپ ایک طرف سےجائزہ لینا شروع کریں تو سارے حقائق آپ کے سامنے عیاں ہونے لگیں گے۔
مراکش‘ الجزائر‘ تونس کا دیگر اسلامی ممالک سے کیا تعلق ہے؟ وسطی اور مغربی افریقہ کے مسلم ملکوں کے ہم میں سے اکثر لوگ نام تک نہیں جانتے۔ مصر سے ہمارے تعلقات ایسے ہی ہیں جیسے کسی بھی دور دراز ملک سے ہو سکتے ہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستوں نے جتنے معاہدے اسلام دشمن ممالک اور اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے ہیں‘ ہماری سوچ سے زیادہ ہیں۔ مشرق بعید میں انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور برونائی کی اپنی دنیا ہے۔جو اپنے آپ میں مگن ہیں ماضی قریب میں ان ملکوں میں سے کسی ملک کا سربراہ کسی دوسرے اسلامی ملک کا دورہ کم ہی کیا ہے انہیں کسی اسلامی ریاست سے کوئی معاہدہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ؟ ایران کو لیجئے۔ کھلم کھلا نہ سہی‘ اندر خانے چپقلش ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی بلکہ اب تو اس نے اسلامی ممالک خاص کر سعودی عربیہ کو آنکھیں دکھانی شروع کردی ہیںاور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ایران اور سعودی عربیہ کی آپسی چپقلش کہیں مشرق وسطیٰ کو جنگ کی آگ کا ایندھن نہ بنادے۔ ایران نے مسلم ممالک کو زیر کرنے کے ارادے سے اسلام دشمن طاقتوں خاص کر روس سے کے ساتھ مثالی تعلقات کرلئے ہیں۔ اسلامی ممالک میں پاکستان کی حیثیت تھالی کے بیگن کی طرح ہے،پڑوسیوں سے اس کے تعلقات کبھی بھی ٹھیک نہیں رہے ہمیشہ امریکہ نے اس کو تگنی کا ناچ نچایا ہے۔امریکہ جو چاہتا ہے وہ پاکستان سے کرلیتا ہے۔افغانستان جیسے دیگر چھوٹے ممالک کی کوئی حیثیت نہیں ہےآپس میں ہی برسر پیکار ہیں ان کی اس کمزوری کا فائدہ غیروں نے خوب اٹھایا ہے۔
غرض کہ مسلم ممالک کی چشم خود غرضی نےآنکھوں پر ایسی دھندلی عینک لگالی ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی نظرنہیں آتی۔اگر یہ مسلم ممالک آپس میں دست وگریباں نہ ہوتے ،اپنی عقل اور دولت اسلام دشمنوں کے یہاں گروی نہ رکھی ہوتی ،اپنی عقل اور دولت کا صحیح استعمال کیا ہوتا تو آج دنیا کے تمام مسلمان شان امتیاز کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے۔مگر کیا کیاجائے!؎
گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی                    ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
دشمنوں نے زمین کو مسلمانوں پر تنگ کردیاجہاں تہاںمسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہےمسلمانوں کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر بنادی گئی ہے۔جانور محفوظ ہیں مگر مسلمانوں کی جان محفوظ نہیں ہے۔جب جان ہی محفوظ نہیں تو ایمان کیا محفوظ ہوگا۔ہماری وہ درس گاہیں جہاں ایمان بنانا سکھایاجاتا تھاوہ بھی آپسی چپقلش کا شکار بن گئی ہیں اعدادوشمار کے لحاظ سے سعودی عرب اور ایران دو ایسے ممالک ہیں جو اپنے مقاصد کی تکمیل وتحفظ کے لئےعالم اسلام کے منتخب مدارس کو سب سے زیادہ مالی امداد پہنچا رہے ہیں۔ قطر‘ کویت‘ یو اے ای‘ امریکہ‘ انگلینڈ‘ یورپی ممالک اور جنوبی افریقہ بھی حسب توفیق اس کارِخیر میں حصہ لے رہے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ تمام مدارس جو سعودی عرب اور ایران نے منتخب کیے ہیں ‘ اپنے طلبہ کو اٹلی اور برازیل کی تاریخ پڑھا رہے ہوں گے؟ یا جاپان اور فلپائن کے جغرافیہ کا درس دے رہے ہوں گے؟ یا مشرق وسطیٰ کے طلبہ کو عقل ودانش کا درس دے رہے ہوں گے؟ یا پورے عالم کو اخلاقی اور اصلاحی درس دے رہے ہوں گے؟نہیں بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب عقائد‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ بچے کو بھی معلوم  ایران سے مدد لینے والے مدارس اپنے طلبہ میں ایران کی محبت اور سعودی عرب سے وابستہ مدارس اپنے طلبہ میں سعودی نقطۂ نظر سے پیار بھر رہے ہیں!۔
ان حالات میں مسلمانان عالم عموماً برصغیر اور خاص کر مسلمانان ہندکے لئے ضروری ہے کہ اپنے ملک کے تحفظ کے ساتھ ساتھ عوام کے درمیان ہم آہنگی کی کوشش کریں۔ ہمارا اولین مفاداور اولین فرض،ملک اور ملک کے عوام ہیں۔ ہمارا ملک عقائد کے اعتبار سے‘ زبانوں‘ نسلوں اور قومیتوں کے حوالے سے ایک متنوع اور رنگارنگ سرزمین ہے۔ یہ تنوع اور یہ بوقلمونی ہی ہمارے ملک کا حسن ہے اور اگر ہم نے دانش مندانہ رویہ نہ اپنایا تو یہ رنگارنگی‘ یہ تنوع‘ ہمارے لیے اضطراب کا باعث بھی بن سکتا ہے! اگر ہم ہندوستان کے خیرخواہ ہیں تو ہمیں وہ اقدامات فوراً سے پیشتر اٹھانے ہوں گےجن سے ملک میں ہم آہنگی پیدا ہو،ہمیں کسی ملک کا آلہ کار نہیں بننا ہوگا۔
 ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو سرد جنگ جاری ہے‘ اور جو تیزی سے صف آرائی کی طرف گامزن ہے‘ اس جنگ میں ہمیں اس حد تک غیر جانبدار رہنا ہو گا جہاںتک حرمین شریفین محفوظ ہیں۔ہمیں شیعہ سنی جھگڑوں میں نہیں پڑنا۔مشرق وسطیٰ میں آگ جل رہی ہے! ہمیں اس آگ سے اپنے ملک کو بچانا ہو گا۔ سرحدیں اس قدر مضبوط کرنا ہوں گی کہ کوئی رضا کارنہ ایران کے تربیتی کیمپوں میں جا سکےاور نہ داعش میں شمولیت اختیار کر سکے۔ ہمیں اپنے سادہ دل لوگوں کو قائل کرنا ہو گا کہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں اسلامی جماعت یا تنظیم نہیں ہیں بلکہ یہ یہود ونصاریٰ اور ایران کی آلہ کار تنظیمیں ہیں۔ان دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ دنیا میں بد امنی قائم کرکے دنیا پر اپنی بالا دستی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ روس امریکہ کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر برابر کا حریف ہے۔ امریکہ اپنی برتری کو بچانے کے درپے ہے۔ یہ راز کی بات نہیں کہ مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ جنگ کی منصوبہ بندی امریکہ کے پالیسی سازوں نے چالیس پچاس برس پہلے کر لی تھی اور جو کُچھ ہو رہا ہے‘ منصوبہ بندی کے عین مطابق ہو رہا ہے۔
                                                                            
اگلی اشاعت
یہ سب سے پہلی اشاعت ہے
Older Post

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.