Saturday, 23 March 2013

23:03
گزشتہ سے پیوستہ(قسط ۲)

اسلام کہتا ہے اللہ ہی رب العالمین ہے اورمحمدﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ’’کافۃ للناس ‘‘کہہ کریہ ثابت کردیا کہ آپ کو تمام انسانوں کے لئے مبعوث فرمایا ہے،اور قرآن پاک کو ’’بلاغ للناس ‘‘اور بصائر للناس ،یعنی تمام دنیا کے لئے پیغام ہدایت بنایا، اور ’’ بیت اللہ‘‘ شریف کو’’مثابۃ للناس ‘‘ کہہ کر خطاب کیا یعنی تمام دنیا کے لئے مرکز ہدایت ،اور امت مسلمہ کو’’ اخرجت للناس‘‘ اور ’’ شھداء علی الناس‘‘ کے خطاب سے نوازا یعنی مسلمانوں کو پوری انسانیت کا نگران مقرر فرمایا ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کو کسی خطہ خاص یا طبقہ خاص تک محدود نہیں رکھا ۔بلکہ اسلام سب کی رہنمائی کرتا ہے اور سب کو اپنے دامن عافیت میں جگہ دیتا ہے ،اسلام تمام افکاروں تمام قوموں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،اسلام محکوم نہیںبلکہ حاکم ہے،اسلام کسی کا پابند نہیں سب کو اپنا بند بنایاتا ہے اور سب کوساتھ لیکر چلنے کا قائل ہے۔
چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہیں ساراجہاں ہمارا

موجودہ دور میں مذہب خاص کر مذہب اسلام موضوع سخن بنا ہوا ہے ،کہ اسلام اور جہوریت دو جدا گانہ نظام ہیں ،اور اسلام اس جمہوری دور میں عصری تقاضوں کے ہم آہنگ نہیں ہے۔جب کہ ایسا نہیں ہے ۔مذہب ایک قلبی طور پر محسوس ہونے والا ایک حقیقی اور پر اثر احساس ہے ایک ایسی چیز جس کا تعلق زندگی کے تما م پہلوؤں کے ساتھ ہے۔دوسری طرف ایک فلسفیانہ نظام ہے جو انسان کو مذہب بیزاری سکھاتا ہے ،ان کے یہاں سماجی اور معاشی تصور الگ ہیں ۔جس کو یہ جمہوریت کے نام سے پکارتے ہیں ۔اور اسلام کو اینٹی جمہوریت یا جمہوریت مخالف تصور کرتے ہیں ۔ اور اسلا و جمہوریت کا موازنہ کرتے ہیں ۔ جبکہ اسلام کا کسی جمہوریت یا کسی دوسرے سیاسی سماجی معاشی نظام سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔اسلام کا مرکزی نقطہ نظر زندگی کے ناقابل تبدیل پہلوؤں سے ہے ،جبکہ سیاسی اور سماجی اور معاشی نظام کا تعلق زندگی کے تغیر پذیر پہلوؤں سے ہے۔
جمہوریت ایک بتدریج فروغ پانے والا اصلاحی نظام ہے جو مختلف حالات میں حالات کی مناسبت سے تغیر پذیر ہے ،جب کہ اسلام کے اپنے مستقل پائیدار اور جامع اصول ہیں جن کا دائرہ کار انسان کے اعمال عقائد ایمان عبادات اخلاقیات اور معاملات سے ہے ،اور یہ ناقابل تبدیل اصول ہیں ۔
اسلام اور اقتدار اعلیٰ:
اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیتِ مخلوق(عوام) کے بجائے حاکمیت ِخالق (اللہ تعالیٰ )کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے کسی کو بھی ’’ارباب من دون اللہ‘‘ بننے کا حق نہیں دیا گیا ہے ۔
اسلامی نقطہ نظر سے اللہ تعالیٰ ہی حاکم اعلیٰ ہے کوئی خاندان کوئی ملت کوئی قوم اپنی حاکمیت کا دعویٰ نہیں کرستی ــ
’’ان الحکم الا للہ‘‘(انعام: ۵۷) (حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں)۔
اللہ تعالیٰ قانون ساز ہے اور اسی کو ردو بدل کا حق ہے اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں۔حتیٰ کے انبیا علیہم السلام کو بھی نہیں۔
امیر یا اسلامی حکومت صرف اسی صورت میں قابل قبول ہے جب تک وہ قانون الٰہی کی پابند رہیں گی۔
اسلام میں قانونی اور سیاسی حاکمیت میں کوئی امتیاز نہیں اللہ ہی سیاسی اور قانونی مقتدر اعلیٰ ہے۔
جن لوگوں کے ہاتھوں میں سیاسی نظام کی باگ ڈور ہوتی ہے ان کی حیثیت حاکم کی نہیں بلکہ نگراں اور منتظم اعلیٰ کی ہوتی ہے ان کا فرض منصبی یہ ہے 



کہ وہ خود بھی اللہ کے احکام کی پاسداری کریں اور دوسروں کو بھی پابند عمل بنائیں ،اور عدل وانصاف کے ساتھ اللہ کی مخلوق کی دیکھ بھال کریں اور ان کے معاملات کو سلجھائیں ۔
اسلام میں حکومت ایک امانت ہوتی ہے اس لئے اس کا حق وہی ادا کرسکتے ہیں جو امین ہوں ۔
اسلام میں شخصی آزادی یا جمہوریت:
اسلام میں انفرادی اور شخصی آزادی کافی اہمیت کی حامل ہے یہی ایک ایسا پہلو ہے جو تھوڑی بہت جمہوریت سے مما ثلت رکھتی ہے ۔ اسلامی دستور کے مطابق ہرایک شخص کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم سب کو ، مذہب ،عقیدہ ،تنظیم ،وغیرہ کی کھلی اجازت دیتا ہے ،بشرطیکہ وہ مفاد عامہ میں ہو ،اور اس سے شر وفساد نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۝۶۴ ( مائدہ ۶۴- )
اور یہ ملک میں فساد کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
اس لئے اسلام ایک پر امن زندگی کی ضمانت اور حکم دیتا ہے ۔اسلام جمہوریت کے اس پہلو سے بالکل ہم آہنگ ہے بلکہ جمہوریین نے یہ اصول اسلام سے ہی اخذ کیا ہے۔اسلام مساوات اخووت و بھائی چارگی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی جمہوریت کا نعرہ ہے ۔قرآن فرماتاہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ
ترجمہ:لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔
تو ظاہر ہے جب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں تو ان سے رنگ ونسل کا امتیاز خود بخود ختم ہوجائیگا ،اور پھر یہ رنگ ونسل کا فرق صرف فروعی حیثیت رکھتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ اَبِی نَضْرَةَ قَالَ حَدَّثَنِی اَو حَدَّثَنَا مَنْ شَہِدَ خُطَبَ رَسُولِ اللّٰہِ بمِنٰی فِی وَسَطِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ وَہُوَ عَلٰی بَعِیْرٍ فَقَالَ یٰایُّہَا النَّاسُ أَلاَ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وأنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیّ عَلٰی عَجَمِیّ وَلاَ عَجَمِیِّ عَلٰی عَرَبِیّ وَلاَ لِأسْوَدَ علٰی اَحْمَرَ وَلاَ لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی أَلاَ ہَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ قَالَ لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِب
ابونضرة ؓفرماتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو مقام منی میں ایامِ تشریق کے درمیان میں حضور صلى الله عليه وسلم کے خطبوں میں حاضر تھا دران حالیکہ آپ اونٹ پر سوار تھے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے لوگو خبردار تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ (آدم) ایک ہے خبردار کسی عربی آدمی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر نہ کسی کالے وسیاہ آدمی کو کسی سرخ پر اور نہ کسی سرخ کو کسی سیاہ آدمی پر کوئی فضیلت ہے ہاں تقویٰ فضیلت کا مدار ہے پھر آپﷺ نے صحابہ ؓسے مخاطب ہوکر فرمایا کیا میں نے پیغام الٰہی امت تک پہنچادیا؟ صحابہؓ نے جواب دیا جی ہاں آپ(ﷺ) نے پہنچادیا آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جو یہاں موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہے۔ (روح المعانی ۸/۱۶۴ من روایت البیہقی والمردویہ، تفسیر قرطبی ۸/۶۰۵)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (القرآن)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔       




0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.