پیش کردہ :عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شعائر اللہ کی اہمیت
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۳۲
اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری (الحج:۳۲)
اور اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۰ۭ
جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔(الحج:۳۰)
میرے محترم بزرگو دوستو!اور عزیز ساتھیو!
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں متعدد جگہ اور متعد موقعوں پر تقویے والی زندگی گزارنے ہدایت فرمائی ہے۔تقویٰ ایک ایسی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کرانسا ن اللہ کا مقرب بندہ ہوجاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں تقویٰ والی زندگی اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔
صاحب ’’المنجد ‘‘ نے تقوے کےمعنٰی حفاظت اور نگرانی کرنا لکھا ہے۔
اور راغب نے مفردات میں لکھا ہے :
’’اَلوِقَایَةُ حِفظُ الشَّیء مِمّایُوذِیہِ ‘‘
مضر اور نقصان دہ چیز سے حفاظت کانام تقویٰ ہے
قرآن مجید میں تقویٰ کا بیان:
قرآن مجیدمیں لفظ’’ تقویٰ ‘‘کا مختلف صورتوں میں، بیسوں جگہ پر استعمال ہوا ہے۔ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ چار معانی کا حامل ہے۔اردو میں ہم یہ معانی بچاؤ،ڈر،خوف خدا اور پرہیز گاری کے الفاظ میںادا کر تے ہیں۔ جبکہ ان میں سے آخری مفہوم پہلے تین مفاہیم کا جامع ہے۔ یعنی جب انسانی زندگی میںگنا ہوں سے بچنا، آخرت کے عذاب سے ڈرنا، اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف میں تقویٰ کےمفہوم میں جمع ہو جاتے ہیں، تو وہ ایک جامع مفہوم وجود میں آتا ہے، جس کو ہم پرہیز گاری کی تعبیر کرسکتے ہیں ، اور یہ تقویٰ کے اس تصور کی اساس ہے، اور یہی دین میں مطلوب ہے۔
قرآن پاک میں تقویٰ کی اہمیت:
قرآن مجید میں متعدد مقامات پرتقویٰ سے متعلق گفتگوکی گئی ہے اور کم از کم ’’۷۸‘‘مقامات پرجملہ ’’"اتقوا"‘‘کے ذریعہ تقویٰ والی زندگی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔تقویٰ کی اہمیت سے متعلق چند آیات کریمہ ملاحظہ فرمائیں:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ
اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَاِيَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللہَ۰ۭ
اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان کو بھی اور (اے محمدﷺ) تم کو بھی ہم نے حکم تاکیدی کیا ہے کہ خدا سے ڈرتے رہو (النساء:۱۳۳)
اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ۰ۣۙ يُوْرِثُہَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۰ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۱۲۸
زمین تو خدا کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا مالک بناتا ہے۔ اور آخر بھلا تو ڈرنے والوں کا ہے (الاعراف:۱۲۸)
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۲
(دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے (المائدہ:۲)
ایک موقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی متعین ہے اور ان کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں،جن کے بارے میں ہر آدمی یقین کے ساتھ کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا۔لہٰذا جس کے بارے میں شبہ ہو کہ یہ چیز حرام ہو سکتی ہے، اس سے بچو۔ یہ طریقہ اختیار کرنے والااپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیتا ہے اور شبہات کا ارتکاب کرنے والاایک لحاظ سے حرام کامرتکب ہو جاتا ہے، اس لیے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کی چراگاہ کے کنارے کنارے اپنے گلے کو چرانے لگے۔ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ اس کا گلہ دوسرے کی چراگاہ کی حد میںداخل ہو جائے گا۔ یاد رکھو! ہر بادشاہ کی ایک اپنی چراگاہ ہوتی ہے۔ یاد رکھو! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں‘‘۔ (مسلم، کتاب المساقاۃ)
تقویٰ کا تعلق انسانی اعضاء وجوارح سے ہے یعنی انسان کا ظاہر وباطن(قلب)پاکیزہ ہو۔اوراسلامی تعلیمات سے معمور ہو اور اس کا قلب خشیت الٰہی سے مزین ہو۔
مختصراً تقویٰ کہتے ہیں اسلامی تعلیمات کی وہم کے درجہ تک تعمیل یعنی پابندی کرنا جیسا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:
’’تقویٰ وہ ہے جس طرح سے ایک آدمی خار دار جنگل میں اپنے دامن کو کانٹوں سے بچا کر چلتا ہے‘‘۔
تو جب تک انسان خود کو گناہوں سے اس طرح سے بچا کر نہیں چلے گا وہ متقی نہیں ہوسکتا۔اور نیکی اورگناہ کا تعلق انسان کے اعضاء ہے جس میں انسان کے تمام اعضاء آنکھ ،کان،زبان،ہاتھ ،پیر،اور دماغ شامل ہیں جس کا سیدھا اثر قلب پر ہوتا ہے۔جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبا لگ جاتا ہے جو گناہوں کی وجہ سے بڑھتا رہتا ہے ۔اور جب انسان نیکی کرتا ہے تو قلب صاف ہوتا چلا جاتا ہے اور قلب میں نورانیت پیدا ہوجاتی ہے اور اسی قلب کو متقیوں کاقلب کہا جاتا ہے اور پھر انسان کا شمار مقربین اور اتقیاء میں ہوتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے؟تو عرض کردوں یہ حاصل ہوتا ہے’’ شعائراللہ‘‘کی تعظیم اور اکرام سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےسورہ حج میں فرمایا:
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۳۲
اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری (الحج:۳۲)
اور اس سے پہلی آیت میں اس طرح فرمایا:
وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۰ۭ
جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔(الحج:۳۰)
معلوم یہ ہوا شعائرہ کی تعظیم ادب واحترام سے قلب کا تقویٰ یعنی قلب متقی ہوجاتا ہے۔
یہ بھی عرض کردوں کہ شعار کا درجہ فرض سے بڑھا ہوا ہے جس طرح سے فرائض میں کوتاہی کرنا چھوڑنا حرام ہے اسی طرح سے شعائرہ عدم توقیری بے حرمتی کرنا بھی حرام اور بڑا جرم ہے بلکہ کفر تک کا خطرہ ہے ۔
شعار اللہ میں بہت ساری چیزیں داخل ہیں انہی میں سے کعبۃاللہ(حرم شریف) بھی شعار اسلام داخل ہے اس کی عظمت اور احترام کرنا ہر مسلمان لازم ہے ،اس کی طرف تھوکنا،پیر کرنابے ادبی ہے ،ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کسی مسجد کا امام مقرر کیا،اس نے قبلہ کی طرف تھوک دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی گواری ہوئی کہ اس کو امامت سے معزول فرمادیا۔ آج کل کےہمارے کچھ نوجوان ودیگر حضرات جوکہ پینٹ شرٹ پہنتے ہیں کھڑے ہوکرپیشاب کرنا جن کی مجبوری ہےجہاں بھی دیوار دیکھی بس پیشاب کرنا شروع کردیتے ہیں انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ قبلہ رخ پیشاب کر رہے ہیںیا پھر ان تمام جگہوں پر پیشاب کرتے ہیں جو کہ عوامی رفاہ عامہ کی جگہ ہوتی ہیں مثلاً اسپتال ،بس اسٹینڈ،مسافر خانہ،گھروں کی دیواریں ،پیڑوں کی جڑیں جب کہ ان جگہوں بول وبراز کرنے شرعاًممانعت ہے۔
الغرض بات چل رہی ہے شعاراللہ کی تو عرض گزار ہوںکہ:
قرآن پاک اور رمضان المبارک بھی شعائراللہ میں داخل ہے،آپ سب کو معلوم ہےقرآن پاک کا رمضان المبارک سے خاص تعلق ہےکیوں کہ اسی ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوااور یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن پاک کو کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہےاور اس کا درجہ بھی تمام انبیاء،رسل،واولیاءسے بڑا ہےاور سب کو قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیراء ہونے کا حکم ہے ،ان تمام توضیحات سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کا بہت بڑا درجہ ہے۔قرآن پاک کے بعد رمضان المبارک بھی شعاراللہ میں داخل ہے۔اس ماہ مبارک کا احترام بھی لازم ہے۔
لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ دونوں ہی شعار سے کھلواڑ ہورہا ہے ،قرآن پاک کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔آج مسلمان کے بچوں کو سائنس کی بڑی بڑی تھیوریاں معلوم انگریزی زبان کے ماہر لیکن نہیں معلوم تو قرآن پاک نہیں معلوم قرآن پاک پڑھنے میں صفر بٹا صفر،اگر ان بچوں اور نوجوانوں سے معلوم کیا جائے کہ بھائی آپ نے قرآن پاک پڑھنا کیوں نہیں سیکھا تو جواب دیتے ہیں ماں باپ نے سیکھنے کا موقعہ نہیں دیا۔چلئے قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا تو کیا قرآپاک سننا بھی منع ہے کیا؟اور اگر قرآن پاک سنتے بھی ہیں تو قریش مکہ کی طرح سنتے ہیں ۔جس طرح کہ ابتدائے اسلام میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی تھی تو قریش مکہ شور شرابا ڈھول تاشے بجایا کرتے تھے اور مذاق اڑیا کرتے تھے آج یہی حال مسلمانوں کا ہوگیا ہے کہ رمضان المبارک میں تراویح کے موقعہ پر جو طوفان بدتمیزی ہوتی العیاذباللہ ادھر امام صاحب تلاوت کررہے ہیں ادھر کچھ آدمی باتوں میں ہنسی مذاق میں دھکا مکی میں مشغول ہیں اور جب امام صاحب رکوع میں جاتے ہیں تو جلدی جلدی رکوع میں شریک ہوتے ہیں اور بد تمیزی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سجدے میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا وغیرہ شیطانی عمل کرتے ہیں ۔اس طرح سے یہ شیطان کے کارندے نہ خود قرآن پاک سنتے ہیں اور نہ دوسرے کو سننے دیتے ہیں ۔جب کہ قرآن پاک فرمارہا ہے :
وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۲۰۴ [٧:٢٠٤]
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
بہرحال میں اپنی بات کو یہیں ختم کررہا ہوں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اسلامی تعلیمات ، رمضان المبارک اور شعائراللہ کی قدر کرنے والا بنائے ۔ آمین ثم آمین
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔