Wednesday 25 September 2013

01:41
1

پردے میں رہنے دو



شب تاریک ہےگویا دن کی روشنی نےسیاہ لباس زیب تن کرلیا ہے،آسمان پر ستارے بھی شرم وحیا کی وجہ سے زیر نقاب ہیں جو مجھے دعوت دے رہے ہیں کہ میں ان کو گھورنا بند کرکےنیند کی آغوش میں پہنچ جاؤں،میری آنکھیں نیند کے خمار میں بوجھل ہونے لگتی ہیں ،قریب ہے کہ میں گہری نیند میں پہنچ جاؤں ۔یکایک برق آسمانی کی ایک کڑک دار آواز پر سکون ماحول میں ہلچل پیدا کرتی ہوئی مجھے ڈسٹرب کردیتی ہے۔اور میری نیند اس آسمانی بجلی کی گھُڑْکی سے ڈر کر بھاگ جاتی ہے،اور ایسی خوف زدہ ہوتی ہے کہ میں ہر چند اس کو بلانے کی کوشش کرتا ہوں مگر ایک بے وفا زندگی کی طرح روٹھ جاتی ہے اور ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔بہرحال نیند کا مجھ سے اور میرا بستر سے ناطہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دماغ کا رشتہ بچپن سے جڑ جاتا ہے۔
 میں اپنے کلکاری مارتے بچپن میں پہنچ جاتا ہوں ،اور زمانہ طفولیت کا مطالعہ شروع ہوجاتا ہے ،یادوں کا یک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ،یکے بعد دیگرے مناظر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ،یکایک منظر بدلتا ہے اور میری سوچ کے پردے پرگندمی رنگ کا ایک دبلا پتلا سا نوٹ بک سائز لڑکا نمودارہوتا ہے ،اسے دیکھ کر میری آنکھیں شبنمی ہوجاتی ہیں ،یہ وہی لڑکا ہے جس نے دار فانی کو ابھی کوچ کیا ہے،یہ وہی میرا درسی ساتھی’’ ارشاد احمد‘‘ تھا جس کو تمام ساتھی پیار میں ’’ارشاد ٹونیا ‘‘کہا کرتے تھے۔
رات کے دو بجا چاہتے ہیں نیند آنے کا تو کوئی مطلب نہیں میں نے کمپیوٹر آن کیا ،ارشاد کی باتیںیاد آتی رہیںدل مچلتا رہا اور انگلیاں کی بورڈ پر چٹختی رہیں اور اسکرین پر ارشاد کی زندگی کے مختلف پہلو اجاگر ہوتے رہے۔ارشاد نے تعلیمی سفر کی شروعات کہاں سے کی یہ تو مجھے نہیں معلوم ہاں اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس نے’’ مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم ‘‘محلہ مردھگان بجنور،جس کو میرے والد محترم حضرت مولانامفتی عزیزالرحمٰن صاحب نور اللہ مرقدہ نے قائم فرمایا تھا۔یہاں اس نے حفظ قرآن پاک شروع کیا ساتھ ساتھ تجوید ،اورخوشخطی میں بھی ملکہ حاصل کیا ،میرے والد محترم سے اردو ادب کی باریکیاں حاصل کیں اور کچھ عربی فارسی کی کتابیں بھی پڑھیں ،لیکن گھر کے حالات سے مجبور ہوکر دینی تعلیم کو روک کر عصری تعلیم میں داخل ہوگیا اور کمال مرتبہ حاصل کیا۔
تعلیم سے فراغت پاکر بچوں کو فی سبیل اللہ پڑھانا شروع کردیا ،بقائے زندگی کے لئے مختلف کاروباری مشاغل میں خارجی طور پرلگا رہا ،ایک طویل عرصہ تک شادی سے گریز کیا آخر کار دوست احباب کے اسرار اور دباؤ سے زندگی کے اس مرحلہ میں داخل ہوا،اللہ تعالیٰ نے اولاد سے بھی نوازابچوں کی کفالت کیسے کرتا تھا اللہ تعالیٰ جو کہ کفیل حقیقی ہے ،کیوں کہ ارشاد نے کبھی بھی روزگار کی بندشوں میں پھنسنا پسند نہیں کیا ،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کو دست غیبی حاصل تھا کبھی کسی کے سامنے دست سوال بھی دراز نہیں کیا اور کرتا بھی کیسے کیوں کہاللہ تعالیٰ نے غریب لوگوں کو اس سے وابستہ کردیا تھا جن کی یہ خفیہ طور پر اعانت کرتا تھا،خود کے گھر کا خرچ بھی شاہانہ انداز میں چلتا تھا،یہ اس کے صاحب کرامت ہونے کی پہلی علامت ہے۔
مجھے اس کی چند باتیں یاد پڑتی ہے ایک دفعہ مجھ سے کہا:
’’انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام طور سے ایسی باتیں کرتا تھا کہ کوئی آدمی اس کو سمجھ نہ پائے
ایک دفعہ کہا:’’نفس کو اس کی خواہش سے دور رکھنا حقیقت کے دروازے کی چابی ہے‘‘۔
مذہبی اعتبار سے ارشاد کا باطن ظاہر کے مقابلہ انتہائی مذہبی تھا ،اس کی راتیں یا تو مسجد میں گزرتی یا جنگل میں ،نہایت ہی زاہد نیک سیرت ،عمدہ کردار واطوار کا مالک تھا،ظاہری زندگی کے مقابلہ حقیقی زندگی کو پسند کرتا تھا ،اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی،مشرکانہ باتوں سے اس کو سخت نفرت تھی بناؤٹی عالموں اور صوفیوں سے سخت الرجی تھی،بڑے عالموں اور صوفیوں کو میں نے اس کے سامنے پانی بھرتے دیکھا تھا،نہایت پاک دامن اور متقی انسان تھا ایسےحضرات کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں،بالکل نایاب انسانیت نواز انسان تھا ،ارشاد انہی خوبیوں کی وجہ سے عوام و خواص میں ’’ پیر جی ‘‘کے نام سے مشہور تھا۔
الغرض ارشاداحمد ’’پیرجی‘‘ کی زندگی کا پہیہ اسی طرح گردش کرتا رہا اور وقت بڑی تیزی سے گزرتا رہا۔ یوں لگنے لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہورہی ہے کہ قربِ قیامت میں وقت اتنی سرعت سے گزرے گا کہ سال مہینوں میں، مہینے ہفتوں میں اور ہفتے دنوں میں گزرتے محسوس ہوں گے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ میرے بھائی میرے ساتھی ارشاد احمد’’پیر جی‘‘ کے ساتھ ہوا۔ ابھی تواس نے اپنی حیات کی تقریباً پچاس بہاریں ہی دیکھی ہوں گی کہ حیاتِ دنیوی سے رفاقت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء؁ کووجاءَ ت سکرۃ الموت بالحق کے حکمِ ربی کی تکمیل کے ساتھ ایک جانکاہ حادثہ دے کر ماضی ہوگیا۔(انا للہ وانا الیہ راجعون) اوریہ شعر میرے ذہن میں گونجے لگا:
آبادؔ مر کے کوچۂ جاناں میں رہ گیا
دی تھی دعا کسی نے کہ جنت میں گھر ملے
 زیست کا مجازی لباس جہان رنگ وبومیں چھوڑ کر عالم بقا کی طرف رخصت ہوگئے لیکن ارشاد احمد پیرجی اپنی گوناگوں خوبیوں کے طفیل بہت سے دلوں میں دیر تک زندہ رہے گا۔ وہ جیتی جاگتی انسانی صفات کا حسین مرقع تھا گو عمر زیادہ نہیں پائی، یہی کوئی تقریباً پچاس سال لیکن اس مختصر عرصۂ حیات میں اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اس کی رمز کو سمجھا اور شعور و آگہی کے ساتھ برتا۔اور بہ قول شاعر :
خوش ہیں دیوانگیِ میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
مجھے یا دہے نوجوان ارشاد احمد پیرجی ابتدائی زمانہ ۂ طالب علمی ہی میں علمی خزائن سے مالامال تھا۔ میں اُنھیں دنوں اس کے انداز تکلم سے چونک گیا تھا کہ ایک گوہرِ یکتا ہاتھ آیا، اِسے مزید اُجالنے ،نیز اُس کی آب و تاب سے مجھ سمیت سب کو ضیا پانے کے مواقع ملیں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اُسے کچھ دے پایا البتہ اِس بات کے اعتراف سے خوشی محسوس کررہا ہوں کہ نوجوان ارشاد احمد پیرجی سے بہت کچھ روشنی حاصل کی۔ وہ اکثر مجھے لکھنے کے لئے زور دیتا تھا یہ اسی کی دعاء کی برکت ہے کہ میںاپنی پہلی کتاب انسانی حقوق سے متعلق لکھنے کے قابل ہوا ۔ارشاداحمد پیر جی گوناگوں صفات کا حامل انسان تھااس کے روشن اور زندہ خیالات وتصورات کا بیش بہا خزانہ جو اس کے رخصت ہوجانے کے بعد آج بھی میرے اندر کے جہان کو تابندہ رکھتا ہے یہ اس کے عظیم انسان ہونے کی واضح علامت ہے۔ ایک نادر و نایاب خوبی ہمارے نوجوان دوست اور ساتھی میں یہ تھی کہ وہ ہر عمر اور ہرذہنی و علمی سطح کے لوگوں کے ساتھ ان کی سطح و معیار کے مطابق گفتگو کرتا۔ جود و سخا کا وصف اس کو ورثے میں منتقل ہواتھا غریب پرور انسان تھا نہ معلوم کتنے گھروں کا چارغ اسی کے طفیل روشن ہوتا تھا،کتنی بیوائیں بیوہ ہونے کے باوجود بے سہارہ نہ تھیں نہ معلوم کتنی غریب لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرواچکا تھا۔ بارہا دیکھا گیا کہ ارشاد احمد پیر جی گھر سے نکلتا اور رستے میں جس شناسا یا اجنبی سے بھی ملاقات اور بات چیت ہوتی اس کے دل و دماغ کو روشن، توانا اور معطر خیالات سے عطر بیز کر دیتا۔ غرض وہ جہاں کہیں بھی جاتا اپنے حیات بخش اور حیات آموز تصورات کو بانٹتا چلا جاتا ہے۔
ارشاد احمد پیرجی دوست دار آدمی تھا۔ اس کا حلقۂ احباب بے حد وسیع تھا۔ ہر عمر، ہر نظریے اور ہر مسلک کے لوگ اس کے ساتھ دوستانہ تعلق میں خوشی محسوس کرتے۔ وہ صاحبان علم و کمال کی مجالس میں سنجیدہ مباحث میں بڑے علمی وقار کے ساتھ شریک ہوتا، محفل شعر و ادب میں ادبی و فنی اور تنقیدی نکات پر نہایت بلیغ انداز میں اظہار خیال کرتا اور ہم چشموں اور یارانِ باصفا کے حلقے میں بزلہ سنجی، شوخی اور لطائف سے محفل کو زعفران زار بنادیتا۔ یقین جانیے ہم نے بڑے بڑے لطیفہ گوؤں، گفتار کی کی پھلجڑیاں بکھیرنے والوں اور کالم کا پیٹ بھرنے والوں کو ان کے سامنے دریوزہ گر پایا۔ بارہا دیکھا کہ مجلس میں ہر نظریے ہر مکتب فکر کے لوگ بیٹھے ہیں۔ارشاد احمد پیرنے اپنا نکتۂ نظر اِس قدر اثر آفریں انداز میں بیان کیا کہ سب نے ’’آمنّا وصدقنا‘‘ کہا۔ وہ دوستوںکا دوست اور یاروں کا یار تھا لیکن دوستی یاری میں ہر خوب و ناخوب پر صاد نہیں کرتا تھا بلکہ حق بات برملا کہتا اور بڑے سے بڑے نظریاتی مخالف سے اپنا نکتۂ نظر بہت کچھ منوالیتا۔
 اس کا خاص وصف یہ تھا کہ یہ محفل کی رونق ہوتا تھا۔وہ اپنی گفتگو میں کہیں نہ کہیں کوئی مثال، لطیفہ، قصہ، کہانی ضرور جڑ دیتا تھا جس سے گفتگو اور محفل دونوں کشتِ زعفران بن جاتی تھیں۔ مجلسی آدمی تھا۔ اس کے بغیر کوئی بھی مجلس (علمی وادبی ہونا ضروری نہیں) ادھوری ہوتی تھی۔ بلکہ عام مجلس کو بھی علم و ادب کے زیور سے آراستہ کرنا اس کے لیے مشکل نہ تھا۔ باتوں باتوں میں بڑے بڑے عقدوں کو حل کر دیا کرتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے خاص خزانوں میں سے وہ وہ صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں جن کا ایک آدمی میں جمع ہونا عموماً ناممکن ہوتا ہے۔
علمی محفلوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ اس میں تو اس کی ذات کی مشک وعنبر کی سی مہکتی خوشبوؤں نے باغیچۂ علم کے گلوں کو ایسا مسحور کیا ہوتا تھا کہ بڑے بڑے عالم بھی دیدے پھاڑ کر تکے جارہے ہوتے تھے۔ اس کی علمی و ادبی شخصیت کا ہر ایک معترف تھا لیکن وہ اپنے آپ پر عاجزی کا لبادہ اوڑھے ہوتاتھا۔ کسی اجنبی کا پہلی ملاقات میں ہی ان کا گرویدہ ہوجانا کوئی عجیب نہ تھا بلکہ اس کی ہمہ جہت شخصیت اور علم لوگوں کو اس کی طرف اس طرح کھینچ لاتا تھا جیسے پیاسا کنویں کی طرف خودبخود کھنچا چلا آتا ہے۔ وہ ہر ایک سے محبت کرنے والا انسان تھا ۔اس کے پشتِ زمین سے بطنِ زمین میں چلے جانے کے بعد ان کے دوست احباب ،اعزہ و اقارب میں سے ہر ایک اس کیفیت کا اظہار کررہا تھا کہ وہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سے صحابہؓ یہی گمان کیا کرتے تھے کہ وہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
اس کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے اندر کسی بڑی سے بڑی ہستی یا کسی سکۂ رائج الوقت نظریے کے بارے میں کسی قسم کی مرعوبیت یا احساسِ کمتری کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ اپنے مسلک کی پختگی اور صلابت پر چٹان کی طرح مستحکم لیکن دوسروں کے معتقدات اور نظریات کے بارے میں وسیع القلبی اُس کا خاصا تھا، یعنی نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو۔
میری ہم عمر تھا لیکن اپنی ان گنت خوبیوں کی بنا پر اُس نے میرے دل میں اپنا ایک خاص مقام بنالیا تھا۔ اُس کی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے میرے دل میں اُس کے لیے غیر معمولی قدر و منزلت تھی۔ ذہانت اور فطانت کا پیکر ہونے کے باوجود اُس میں ایک انکساری اور تعلقات کے ضمن میں وضعداری تھی۔ وہ جب بھی مجھ ایسے گوشہ نشین ،اور علمی بے بضاعتی والے کے ساتھ وقت گزارتا،تودنیا کے ہر موضوع پر بات ہوتی۔ میں اس کی معلومات کی وسعت، شعر و ادب کے جدید رجحانات پر اس کی دسترس، دنیاکے سیاسی، علمی اور ادبی حلقوں کی سرگرمیوں سے مکمل واقفیت پر حیران رہ جاتا۔ وہ چند لمحے جو اس کی معیت میں بسر ہوتے ایک عرصے تک مجھے سرشار رکھتے۔
 ارشاد احمد پیر جی کی اِس اچانک موت نے ایک عجیب سا دکھ دل میں بھر دیا ہے۔ دوست بھی ایک فیملی ہوتے ہیں۔ دوستوں کی موت بھی بوڑھا کردیتی ہے۔ لگتا ہے کوئی قیمتی چیز کھو سی گئی ہے۔ شاید اب نئے دوست زندگی میں نہ بنائے جاسکیں کہ دوستوں کی موت پر مزید آنکھیں نم نہیں کی جاسکتیں۔ ایک عجیب سا دھواں ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والا شدید درد ہے جو آنکھوں کے ذریعے نہ بہہ سکتا ہے اور نہ ہی رک سکتا ہے۔ ایک ناقابلِ برداشت سی بے کلی ہے۔ اپنے اندر دور تک بڑھتی ہوئی اذیت ہے۔ بے چینی ہے۔ تنہائی اور اداسی ہے۔ مجھے پتہ نہیں یہ سب کچھ کیاہے!
جب بھی کوئی قابل صد احترام اور عزیزہستی داغ مفارقت دے جاتی ہے تو دل میںاک ہوک سی اٹھتی ہے اور یہ خیال پختہ تر ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں،رفتگاں کی یادوں کے جان لیوا صدموں سے نڈھال، ان کے مداح ان کی یادو ں کے سہارے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔اس عالم آب و گل میں زندگی کی اداس راہوں پر چلتے ہوئے ہم ’’ارشاد احمد پیر جی‘‘ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ دعاء گو ہوں اللہ تعالیٰ اس کی لحد کو اپنے نور سے منور فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عنایت فرمائے اور تمام پس ماندگان اور دوست احباب کو صبر جمیل عطافرمائے۔اٰمین ثم  اٰمین۔     بہ قول فراق گورکھپوری :
بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں، کیا کریں
ہر رہ گزرپہ ،تیرے گزرنے کا حسن ہے


1 comments:

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.