پیش کردہ : صوفی عقیل احمد قریشی
مسلک اہلحدیث اوراحسان و سلوک
علم تصوف وسلوک ایک حقیت ہے ،اور کسی بھی حقیقت سے کوئی بھی منصف مزاج اور سلیم الفطرت شحص انکار نہیں کر سکتا۔علم سلوک کی اہمیت وافادیت اس قدر مسلمہ ہے کہ امت میں بڑے بڑے نامور لوگوں نے اسکو احتیار کیا ہے،اور اس دور سے پہلے امت میں کوئی ایسا گروہ پیدا نہیں ہوا ،جو مطلق تصوف کا انکاری ہو،مگر اس قحط الرجال کے دور میں ایسے ناعاقبت اندیش لوگ موجود ہیں جو نہ صرف علم سلوک سے انکاری ہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس چیز کی جتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے،وہ شئی اتنی ہی نایاب ،اور اسکی نقل بھی اتنی ہی عام ہوتی ہے،تصوف وسلوک کے معاملہ میں بھی یہی کچھ ہو۔ یہ جتنی نایاب اور عظیم دو لت تھی،اتنی ہی اسکی نقل بھی تیار ہوئی،اس لیے ہر عہد میں جہاں علماء نے تصوف وسلوک کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا،وہاں پر تصوف و سلوک کے نام پر پیدا ہونے والی بدعات وخرافات کا بھی سختی سے رد کیا۔
تصوف اسلامی کی اصل دشمن غیر مسلم قوتیں ہیں جو کہ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں،کہ اگر تصوف اسلامی عالم اسلام میں رائج ہو گیا تو پھر یہ سویا ہوا شیر بیدار ہو جائے گا،اس لیے باقاعدہ جس طرح نقلی علماء تیار ہوئے،بالکل اسی طرح نقلی صوفیاء بھی تیار ہوئے،اور پھر انکے مقابلے میں ایسے لوگ کھڑے ہوئے ، جو اصل اور نقل میں فرق نہیں کر سکتے تھے،پھر ایسے نا معقول لوگ بلا دھڑک تصوف اسلامی پر بھی لعن طعن کرتے ہیں،اور یوں تصوف اسلامی کو عوام ں پنپنے سے روکنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں۔
مسلک اہلحدیث اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے اس پراوپگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہوا،اور اس عہد کی نئی پود تونہ صرف تصوف سلوک سے نابلد ہے،بلکہ تصوف اسلامی کی سخت مخالف بھی ہے،اور افسوس یہ ہے کہ یہ مخالفت کوئی علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ کھلی جہالت اور ضد پر ہے،ورنہ اس عہد میں جسے ہم مسلک اہلحدیث کہتے ہیں،اگر اس مسلک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اکابرین اہلحدیثؒ کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے،جو اپنے وقت کے صاحب کشف وکرامات اور صاحب نسبت صوفی بزرگ تھے۔
پروفیسر محی الدین (روز نامہ اوصاف) کی ر ائے:۔ معروف کالم نگارپروفیسر محی الدین(روزنامہ اوصاف) میں لکھتے ہیں:۔
’’ عام طور پر اہلحدیث جن کو غیر مقلد کہا جاتا ہے ،اور جو وہا بی کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں ،انکو تصوف اور روحانیت سے نابلد کہہ کر روحانیت اور تصوف کے مخالف بتائے جاتے ہیں ،مگر یہ بات ان پر تہمت ہے،عملاً حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔غزنو ی علماء اکرام تصوف اور روحانت سے گہرا شغف رکھتے تھے،روحانی سلسلہ کے آخری مدارج طے کرنے والے پروفیسر ابوبکر غزنوی تھے،جو داتا دربار کے منتظم کے ساتھ ساتھ ہی اہلحدیث مدرسہ کے منتظم بھی تھے ،اور شیش محل روڈ پر واقع مدرسہ کے حال میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے،آپ کے خطبہ میں اکثر اہل علم ،دانشور اور کلاء آتے تھے۔پینٹ کوٹ پہننے والا یہ پروفیسر بہت بڑا صوفی اور روحانیت کی دنیا کا واضح کردار کا حامل تھا،ان کے آباؤ اجداد اسی تصوف پر کاربند تھا،جو شریعت کا پابند تھا۔مشرقی پنجاب میں لکھوی خاندان کو بڑی شہرت حاصل تھی ،مولانا حافظ محمد لکھوی نے پنجابی زبان میں تفسیرقران لکھی،اور انکی دوسری کتاب ’’احوالِ آخرت ‘‘ہے،اور بھی کچھ تصنیفات ہیں ،اور یہ سب روحانی اور دینی مفہوم کی پنجابی زبان میں ہیں ،یہ خاندان تصوف اور روحانیت پر کار بند رہا ہے‘‘۔
اکابرین اہلحدیثؒ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اولاً تو انکی سوانح حیات مرتب نہیں ہوئی ہیں ،اور جو مرتب کی گئی ہیں ،ان میں اکابرین اہلحدیثؒ کا جو تعلق تصوف وسلوک کیساتھ تھا ،اسے نہ صرف مبہم کر کے پیش کیا گیا،بلکہ ایک حد تک تو اسے پس پردہ کر دیا گیا ہے،اور یوں نئی پود کے پاس افراط وتفریط پر مبنی مولانا کیلانی صاحب کی’’ شریعت وطریقت ‘‘ تو آ گئی،مگر اکابرین ؒ کا تصوف اسلامی نہ آ سکا۔
مولانا ابوالکلام احمد دہلوی کا اہم مکتوب اور مولانا محمد اسحاق بھٹی کا تبصرہ:۔عموماً علمی حلقوں میں یہ بات کہیں جاتی ہے کہ اکا برین اہلحدیث کا جو تعلق تصوف سلوک کیساتھ تھا ،وہ آج کے سلفی حضرات سے مخدوش ہو چکا ہے،گو کہ اس بات میں حقیقت ضرور ہے مگر پوری طرح اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ روحانیت کا یہ سلسلہ اہل حدیث حضرات میں آج بھی کہیں ٹمٹماتا ہوا نظر آتا ہے معروف سوانح نگار مولا نا محمد اسحاق بھٹی نے ’’ تذکرہ مولاناغلام رسول قلعویؒ ‘‘ میں مولانا ابو الکلام احمد دہلوی کے ایک مکتوب کا ذکر کیا ہے،مولانا ابو الکلام احمد دہلوی صاحب دہلی میں رہتے ہیں ،استاذ الاساتذہ ہیں ،اور پرانے لوگوں میں سے ہیں ،اس خط میں تصوف کے متعلق مولانا ابو الکلام احمد دہلو ی صاحب لکھتے ہیں
’’سلفیوں کی بابت دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہوائی ہے،کہ انھیں علمِ باطنی میسر نہیں ،وہ اہل ظواہر ہیں،طریقت نہیں جانتے ،صرف شریعت سے واقف ہیں ۔واشگافانہ الفاظ میں کہوں تو انکے نزدیک یہ لوگ تصوف سے نابلد ہیں ،میرا ارادہ ہے کہ ان خطوط کو شائع کر دوں(مولانا غلام رسول قلعویؒ کے مکتوبات کی طرف اشارہ ہے) اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھوں تا کہ دنیا با خبر ہو جائے کہ اہلحدیث کے یہاں علم طریقت و تصوف ہے،مگر وہ مبنی بر کتاب وسنت ہے ،اور اہل حدیث کو مطعون کرنے والوں کو بتایا جائے کہ:
لذتِ بادہ ناصح کیا جانے
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
ہمارے علم طریقت کی چاشنی کتاب وسنت کے مخلوطہ سے وجود میں آئی ، اوروں کے یہاں انحراف ہے اور زیغ وضلالت۔ہداہم اللہ لصراط المستقیم۔(تذکرہ غلام رسول قلعوی صفحہ ۴۸)
اسی مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں
’’مولانا ابولکلام احمد نے اہل حدیث کے علم تصوف اور علم طریقت کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے،وہ بالکل صحیح ہے،اس باب میں مولانا کے جذبات قابل قدر ہیں ،انھیں اس مواضع پر کھل کر لکھنا چاہئے،اور اہل حدیث علماء کی کرامات اور انکی قبولیت دعا کے واقعات کی تفصیل بیان کرنی چاہئے، اس سلسلے میں بہت عرصہ ہوا مولانا عبدالمجید سوہدریؒ مرحوم مغفور نے کچھ کام کیا تھا،( بھٹی صاحب کا یہ اشارہ کرامات اہلحدیث کی طرف ہے )اور بڑی عمدگی سے بعض اہلحدیث علمائے کرام کی کرامتوں کاتذکرہ فرمایاتھا،اصحابِ کرامات علمائے اہلحدیث کی اس فہرست میں انھوں نے حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ ،مولاناغلام رسول قلعویؒ اور قاضی سیلمان منصورپوری رحہم اللہ کے اسمائے گرامی درج فر ماتے ہیں۔
یوں تو فرقہ احمدیہ سے لیکر روافض تک سب اپنا تعلق صوفیاء عظام سے ظاہر کرتے ہیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ تصوف اسلامی صرف اور صرف اہلسنت ولجماعت میں ہے اور پاک وہند میں اکثر صوفیاء کا تعلق دو ہی مسالک( حنفی و اہلحدیث) سے ہے۔روا فض و قادیانی اور دیگر گمراہ بدعتی فرقوں میں نہ کوئی صوفی گزراہے،اور نہ ہی پیدا ہو سکتا ہے،کیونکہ اہل بدعت کے سینے اس نور کو قبول نہیں کر سکتے ،اس معاملہ اکثر لوگ (با وجہ لاعلمی) دھوکا کھا جاتے ہیں۔
اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلک اہلحدیث اور اہل حناف جہاں علوم ظاہر وباطنی میں ایک ہی استاد ( شاہ ولی اللہؒ ) کے شاگرد کے ہونے کے ناطے سے ( فروعات کے اختلافات کے علاوہ)کوئی بڑا اختلاف نہیں رکھتے تھے،وہاں تصوف وسلوک کے مسلۂ پر دونوں مکتبہ فکر میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا ،بلکہ دونون مکتبہ فکر کے اکابرینؒ کا تصوف سلوک سے گہرا تعلق وشغف تھا،اور یہ شخصیات کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے،بلکہ انکا شمار آئمہ و اساتذہ میں ہوتا ہے۔اہل حناف کی اس موضوع پر بڑی جامع اور مدلل تصنیفات موجود ہیں ،اور اکا برین اہلحدیث کی بے شمار تقریریں اور تحریریں نہ صرف اس لگاؤ کو ظاہر کرتی ہیں ،بلکہ باوجود مسلکی اختلاف کہ تصوف کے معاملے میں ایک دوسرے کے شاگرد بھی ہیںآلبتہ اہل حناف کو اس معاملہ میں بر تری ضرور حاصل ہے،کیونکہ بلند ترین مناصب اولیاءِ کاملین کا تعلق زیادہ تر فقہ حنفی سے ہے۔ جس طرح جہالت کی تند وتیز آندھیوں نے جہاں ان دونوں مکتبہ فکر کے درمیان باقی معاملات میں ایک دیوار کھڑی کی،وہاں بدقسمتی سے تصوف وسلوک کے مسئلہ پر بھی انکا اختلاف وجود میں آ گیا ،اور ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ دونوں مکتبہ فکر کے درمیان شدید انتشار پیدا ہوا اور کئی گرووں میں تقسیم ہوگئے،اور یہ اختلاف فروعات سے لیکر عقائد تک کا ہے،اہل حناف نے تو اس موضوع پر زور قلم بھی صرف کیا ہے ۔اس سلسلہ میں مفتی سعید احمد خان صاحب کی تصنیف ’’ دیوبند کی تین د ھڑیں‘‘ لائق تحسین ہے۔اہل حدیث حضرات تو اس کار خیر سے محروم ہی نظر آتے ہیں البتہ گاہے گاہے تقریر وتحریر میں اہل دانش کی مذمت ضرور ملتی ہے مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب اپنے ہم مسلک احباب کو اپنے اکا برین سے بے رخی وناقدری برتنے پر بطورِ تنبیہ لکھتے ہیں:۔
’’افسوس اہلحدیث حضرات اس اہم نقطہ کو لائق التفات نہیں گردانتے ،ان میں سے بعض حضرات اس قسم کے کام چھوڑ آجکل صوفیاء کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ،انکا کہنا ہے کہ انھوں نے اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی اور یہ غلط کردار لوگ ہیں ۔
ممکن ہے کہ انکا واسطہ ایسے ہی لوگوں سے پڑا ہو،جنھیں صوفی کہا جاتا ہو،اور وہ غلط کردار ہیں ،حلانکہ غلط کرداری کسی صوفی کیساتھ مختص نہیں ،اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، ہمارا واسطہ کسی غلط کردار صوفی سے نہیں پڑا،ہمارا تعلق ہمیشہ نیک سیرت صوفیاء اور عالی مرتبت اہل علم سے رہا ہے۔‘‘( بزم ارجمند ص۲۸)
یہ نیک سیرت اور عالی مرتبت صوفیاء کون ہیں انشاء اللہ آپ اس کتاب میں ایسے ہی عالی مرتبت صوفیاء اہل حدیث کا تذکرہ ملے گا۔پروفیسر ڈاکٹر سید ابوبکر غزنوی کی تحصیل السلوک کیلئے دعوتِ فکر:۔ بھٹی صاحب کی طرح پروفیسر ڈاکٹر سید ابوبکر غزنویؒ بھی اپنے ہم مسلک حضرات کو تصوف وسلوک کی طرف یوں رہنمائی دیتے ہیں:
’’بعض لوگو ں نے حضرت شاہ صاحبؒ ( شاہ اسماعیل شہیدؒ )کی کتاب ’’ تقویۃ االایمان ‘‘ ہی پڑھی ہے،کبھی صراط مستقیم بھی دیکھو،کبھی عبقات بھی پڑھو،وہ بہت لطیف آدمی تھے،تجلیات سے آگاہ،وہ انوارسے آگاہ،سلوک کے مقامات سے آگاہ،اللہ کی محبت اورمعرفت کے تمام رموز سے آگاہ۔‘‘
اورکبھی یوں دعوتِ فکردیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ایک اور نصیحت تمھیں اور کرتاہوں ،روزانہ کچھ وقت اللہ بھی کیا کرو،میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے،کہ ہر وقت جدل وبحث میں لگے رہتے ہیں ،اور اللہ کے ذکر سے یکسر غافل ہیں،ہمارے اسلاف تو ایسے نہ تھے،وہ سب ذاکر تھے،انکی زبانیں ذکر سے رکتی نہ تھی۔‘‘
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔