Saturday, 2 February 2013

19:26


تبلیغ دین اور اس کے اصول


پیش کردہ: مفتی عابدالرحمٰن بجنوری مظاہری

ایک انسان جب دنیا میں آتا ہےتواس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے،اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک گمراہی کا راستہ اور دوسرا حق اور نجات کا راستہ ، گمراہی کے راستے کی دعوت دینے والا شیطان ہوتا ہے ،حق کے راستے کی دعوت والے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے اصحاب ؓاور صالحین امت وعلماء کرام ہوتے ہیں، جن کا کام ہدایت والے راستہ کی رہنمائی کرنا اور گمراہیوں والےراستے سے روکنا ہوتاہے، جس کو تبلیغ اور دعوت کہتے ہیں۔
تبلیغ کے معنی ہیں پیغام پهنچانااور’’ اسلام میں تبلیغ ‘‘اللہ تعالیٰ کےپیغام کو بندوں تک پهنچانے کو کہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے آخیر میں اپنا آخری پیغام جس کو کلام اللہ یا قرآن پاک کہا جاتا ہے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قیامت تک آنی والی انسانی نسلوں کے لیےرشدو ہدایت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ، اسی قرآنی پیغام کو تبلیغ کہتے ہیں اب چونکہ قیامت تک کوئی نبی اور رسول آنے والا نہیں ہے، اس لیے اب اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانےذمہ داری اس امت کے سپرد ہے،اور ان کی رہنمائی کے لیے اسلامی دستور قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے ، جس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہر انسان تک پہنچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ چنانچہ اسلامی کے تبلیغ کے تین طریقہ ہیں۔زبان کے ذریعہ ، تحریرکے ذریعہ اور عمل کے ذریعہ۔پھر ان تینوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں ۔ تبلیغ کے زبانی طریقه کار میں’’ امربالمعروف و نهی عن المنکر‘‘ وغیره شامل هیں جو تبلیغ اور دعوت کا ایک اہم رکن ہےباقی۔ تحریری تبلیغ ،اور عملی تبلیغ ان کا تذکرہ بھی ضمنا اسی میں آجائے گا۔
تبلیغ کا مقصد یہ ہےکہ’’امربالمعروف‘‘ اور’’ نہی عن المنکر‘‘کے ذریعہ ،انسان کی پوری زندگی کتاب وسنت کے مطابق ہوجائے ’’رب چاہی ہو ‘‘ ’’من چاہی نہ ہو‘‘ ا سلام میں مکمل طور سے داخل ہوجائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸ [٢:٢٠٨] 
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے
اس آیت شریفہ میں انسان کے لیے کھلا پیغام ہےکہ وہ اسلام میں پورے طریقہ سے داخل ہوجائے،اور اس کی تمام نقل وحرکت ،اس کا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا کھانا پینا ،عبادات، معاملات، اخلاقیات،غرض کے اس کی پوری کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوجائےاور اس کواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات پرچلنےکی عادت بن جائے، اس کی پوری زندگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والی کیفیت پیدا ہوجائے اور ان کا نمونہ بن جائے، اوراللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو حاکم حقیقی نہ سمجھےاور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے،اللہ کی کی الوہیت وربوبیت کا دل اور زبان سے قبول کرنا اور عملا اس کا ثبوت پیش کرنے کی ترغیب دینا۔ دعوت کے اس پہلو کو’’ امر بالمعروف‘‘ کہتے ہیں۔ اور جو باتیں اس کی ضد ہوں یعنی کسی کو اللہ کا شریک ماننےاور دین کے معاملے میں اپنی من مانی کرنے قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے سے  روکنا اوران باتوں سے روکنا جس کو اللہ اور اس کےرسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس کو ’’نہی عن المنکر‘‘ کہاجاتا ہے۔ دعوت کے ان دونوں پہلوؤں یا اصطلاح کو’’ نہی عن منکر اور امر بالمعروف ‘‘سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام امم سابقہ کے مقابلہ میں شرف فضیلت بخشی اور اس کوبہترین جماعت کے خطاب سے سرفراز فرمایا،اس لیے کہ یہ اللہ کے بندوں کو راہ مستقیم اور ہدایت والے راستہ کی رہنمائی کرتے ہیں اور برے راستہ سےروکتے ہیں ۔اور خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی حکمت و دانائی سے عمل کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ ﴿آل عمران:۱۱۰
(مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو
چنانچہ اس آیت مبارکہ میں ایک کھلا پیغام ہے اور اشارہ ہے کہ اے امت محمدیہ  صلی اللہ علیہ وسلم تم بہترین امت ہو’’ تمہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے‘‘(یعنی تم پر یہ فرض کیا گیا ہے ) اس لیے کہ تم لوگوں کو اچھائی کی دعوت دیتے ہواور برائیوں سے روکتے ہو ۔اور تما م انسانوں کے اصلاح کی فکر کرتے ہو۔
چنانچہ ہر مسلمان کا یہ ایمانی ا فریضہ بنتاہے کہ وہ معروف (اچھائی) کا حکم دے اور منکر ات(برائی) سے روکے۔
جیسا کہ اس بارے میں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
من رأی منکم منکراً فلیغیرہ” بیدہٰ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطبع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان۔(مسلم: کتاب الایمان)
“ جب تم میں سے کوئی کسی بُرائی کو دیکھے تو اس کو چاہیے اسے اپنے ہاتھ سے مٹادے، اور اگر اس کی قوت نہ رکھتاہوتو زبان سے روکے اور اس کی بھی قوت نہ ہوتو دل سے اسے بُرا مانے اور یہ ایمان کا کمتر درجہ ہے۔”
لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اس امت محمدیہصلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک داعی کی ہے ، تو اس بعد اس کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں، چنانچہ ایک داعی جو دین اسلام کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے اس کو دعوت کے یہ تین اہم اصول ذہن میں رکھنا چاہیے(
۱) خیرکی دعوت(۲)منکرات سے روکنا(۳) ا چھے کاموں کی ترغیب دینا۔
ان تینوں اصول کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے بیان فرمایا ہے:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴ [٣:١٠٤] 
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں (اٰل عمران:
۱۰۴)
یعنی ایک مسلمان پر تین ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں :
(
۱) خیر کی دعو ت دینا ، یعنی ایک ایمان والے کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ غیر مسلم بھائی کو بھی ایمان کی دعوت دےاور اگر کھل کردعوت دینے کی ہمت نہیں ہے،تو اشارۃًوکنایۃ ًاس کو حکمت سے سمجھائے،اگر اتنا بھی نہیں کرسکتا تو اس پر افسوس کرے اور برا جانے اور اس کے حق میں دعاء کرتارہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایمان اور عمل کی دولت سے نوازے اور میرے کلام میں تاثیر پیدا فرما۔ اب رہیں باقی دو باتیں یعنی’’ نہی عن المنکر‘‘ اور’’ امر بالمعروف‘‘ ان دونوں باتوں پر عمل کرنے کاپابند ہر مسلمان کو کیا گیا ہے،اور اس کو حکم دیا گیا ہے کہ ایک مسلمان بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی طاقت بھر اچھی اور بری باتوں سے آگاہ کرتارہے اور یہ اس کا ایمانی فریضہ ہے۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ نےاس امت کواس  کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئےاس طرح فرمایا ہے۔
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَائ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً (بقرہ: ۱۴۳)
“اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک “امت وسط” بنایاہے تاکہ تم دنیا والوں پر گواہ بنو۔”
یعنی اس امت کواحساس دلایاجارہا ہے کہ تمھاری حیثیت امت وسط کی ہے اور تم کو ’’ شہدائ علی الناس ‘‘بنایا گیا ہے۔ امت وسط کا مفہوم یہ ہے کہ تم ایک ایسا گروہ ہو جو سب سے افضل و برتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس امت کے مزاج میں میانہ روی اور اعتدال ہے۔ امت وسط کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے قول وعمل سے دین حق کی شہادت دے اورلوگوں
کے درمیان عدل وانصاف کے قیام کو یقینی بنائے۔اور اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں تمام انسانوں کو اللہ کی اطاعت کی طرف بلانا اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نظام کوقائم کرنا اور اس پر عمل پیراء ہونا ہے۔اس طرح اس امت وسط کی بڑی اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ’’ شہادت ‘‘ کےفریضہ اسی طرح سےانجام دے،جس طرح سےاللہ کے پیارےرسول حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نےعملاً اور قولاً انجام دیا ۔ ٹھیک اسی طرح سے امت مسلمہ کو دنیا کے ہر ملک اور قوم کے سامنے شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنا چاہئے اور اسلامی تعلیمات کو کما حقہ بغیر کسی ردو بدل کے دوسروں تک کوپہنچاناچاہئے۔
یاد رہےقیامت کے روزجس طرح سےایک مسلمان سے دیگر فرائض و واجبات کےمتعلق جواب طلبی ہوگی، اسی طرح’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ‘‘کے متعلق بھی پوچھ گچھ ہوگی ۔اس سے پوچھا جائے گا ۔ کیا تم نے وہ پیغام جو ہم نے اپنے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ تم تک پہنچایا، کیا اس کو تم نے اس کو دوسروں تک پہنچایا؟۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ دَعَا اِلیَ ہُدیٰ کاَن لَہ مِنَ الْاَجرِ مِثلُ اجورِ مَن تَبِعہُ لایَنقضُ ذٰلکَ من اجورہمُ شیئاً۔ (مسلم کتاب العلم)
“جس کسی نے ہدایت کی طرف لوگوں کو بلایا تو اس بلانے والے کو ویسا ہی اجر ملے گا جیساکہ اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے اجر میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔”
مَنْ سَنَّ فِی الاِسلامِ سنۃً حسنۃً فلہ” اجرُھاَ واجرُھا مَنْ عَمِلَ بہا مِنْ بعدِہٰ من غَیْرِ اَنْ یُنقَضْ مِنْ اُجورہمُ شیٌٔ۔ (رواہ مسلم )
“جواسلام میں کوئی اچھا کام کرے اس کو بھی ثواب ملتاہے اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے کو بھی ثواب ملتاہے اور ان کے ثوابوں میں کمی بھی نہیں ہوگی۔”
فَوَاللّٰہِ لا یَہدِیُ اللّٰہُ بِکَ رجُلاً واحداً خیرٌ لَّکَ من انْ یَّکونَ لک حمرُ النعم۔ (بخاری )
“اللہ کی قسم ! اگر تمھارے ذریعے اللہ کسی ایک شخص کو بھی راہ دکھادے تو یہ تمھارے حق میں سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔”
اللہ تعالیٰ نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوپوری دنیا کی ہدایت کے لیےاسلامی تعلیمات دے کر مبعوث فرما یااور ایسے وقت میں مبعوث فرمایا،جب پوری انسانیت نے اپنے پیدا کرنے والے (اللہ تعالیٰ) کو بھلادیاتھا۔ اس وقت نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مشرکوں اور کافروں کے سامنے اسلام کو پیش کیا۔ ان کے سامنے دین حق کی قولی و عملی شہادت کا ثبوت پیش کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ذمے داری کا احساس دیتے ہوئے فرمایا:
یٰآ أَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ أَرْسَلْنَاکَ شَاہِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِیْراً وَدَاعِیْاً اِلَی اللَّہِ بِاِذْنِہٰ وَسِرَاجاً مُّنِیْراً (الاحزاب:۴۶-۴۵)
“اے نبی! ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا، اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والااور روشن چراغ بناکر بھیجاہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذمے داری کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اب چونکہ قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لیے اب یہ ذمہ داری پوری امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی پیغام کو دوسروں تک پہنچائے اور اس ذمہ داری کا پورا پوراحق ادا کرے ۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی ذمہ داری ہر اہل ایمان پر لازم ہے ۔اور یہ دعوت کی ذمہ داری صرف مردوں پرہی نہیں بلکہ عورتوں پر بھی لازم کہ وہ اپنے گھروں میں رہ کر دین کی فکر کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًامِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَاِلحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (حم السجدۃ:۳۳)
“اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہاکہ میں مسلمان ہوں۔
وَمَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُونَ فِیْہَا بِغَیْرِ حِسَاب (مومن:۴۰)
اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیاجائے گا۔ “
جہاں امربالمعروف و نہی عن المنکرکاکام کو کرنےوالوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی و فلاح کی بشارتیں دی گئی ہیں،وہیں اس فریضہ سے غفلت اورلا پروائی برتنے پر سخت وعیدیں بھی ہیں۔ اس کام کو بالکل چھوڑ دینا یا اس میں کوتاہی کرنا اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ سابقہ امموں اور ملتوں پر عذاب آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ انہوں نےدعوت کے کام کو چھوڑ دیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے ’’سورہ بنی اسرئیل ‘‘ قوم اسرائیل کےحالات کواس طرح بیان فرمایاہے:
كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝۷۹ [٥:٧٩] (المائدہ:۷۹)
(اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بلاشبہ وہ برا کرتے تھےاسلام ایک نعمت ہے۔ اس کو تسلیم کرلینے کے بعد دوسروں تک پہنچانا لازمی ہے۔ اس سے غفلت کو قرآن نے ظلم سے تعبیر کیاہے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن کَتَمَ شَہَادَۃً عِندَہُ مِنَ اللّہِ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (البقرہ:۱۴۰)
“ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتاہے جو اللہ کی کسی شہادت کو جو ان کے پاس ہے چھپائیں؟ اللہ اس چیز سے بے خبر نہیں ہے جو تم کررہے ہو۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَلِّغُوا عَنّی ولواٰیَۃً (بخاری)
“میری بات اوروں تک پہنچائوچاہے وہ ایک ہی بات ہو۔”
درجِ بالا آیات و احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد اس بات کاذمہ دار ہے کہ جودین اس تک پہنچاہے اس کو وہ دوسروں تک پہنچائے۔
معاشرے سے بُرائیوں کے ازالے اور خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا ایمان کی علامت ہے۔ یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے کہ انسان جتنی بھی صلاحیت و قوت رکھتاہے اس کو بھلائیوں کے نشر کرنے اور بُرائیوں کے ازالے کے لیے لگادے۔
دنیا میں احکامِ الٰہی اور سنت نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند کرنے کیلئے ، اسلام کے غلبے کیلئے، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے اسلامی اور غیر اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے دعوت کا کام کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اسے دین کا جس قدر علم ہے اس کو دوسروں تک احسن طریقے میں پہنچانا اور سکھانا ضروری ہے اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے دعوتِ دین کے تقاضے کیا ہیں؟ دعوت وہ کونسی خصوصیات اور خوبیاں ہیں کہ جو اس کی دعوت کو ثمر بار بناکر اس کی شخصیت کو قابل احترام اور اس کی دعوت کی کامیابی بناتی ہیں۔ داعی کو معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے کیا کردار ادا کرنا چاہئے دعوت کو مفید اور کامیاب بنانے کیلئے کونسے ذرائع اختیار کرنے چاہئے، داعی کے فضائل دعوت کے احکام کیا ہیں، ایک داعی کیا لائحہ عمل اختیار کرے کہ معاشرے میں انقلاب برپا کر سکے۔ دعوت دین میں حائل مشکلات کا سامنا کیسے کیا جائے۔
دعوت کے چند زریں اصول:
ایک داعی میں مندرجہ ذیل اوصاف ہونا ضروری ہے۔اگر ان با توں کو مد نظر رکھتے ہوئے دعوت کے کام کو کیا جائے گا تو ان شاءاللہ کامیابی حاصل ہوگی۔
ہر داعی کو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ اعمال کادارو مدار نیت پر ہے اگر نیت صحیح ہوگی اور خالص اللہ کی رضا مندی کے لئے کوئی عمل ہوگا تو من جانب اللہ کامیا بی بھی ملے گی اور اللہ کی نصرت شامل حال رہے گی اور اسی عمل پر اللہ کی طرف سے اجر کا وعدہ ہے اس لیے دعوت وتبلیغ کاکام کرنے والے کیلئے سب سے پہلے نیت کا خالص ہونا ضرور ی ہے ، اگر دنیا وی مقاصد مال ومتاع یا شہرت حاصل کرنامقصود ہو تو پھر دنیا اور آخرت میں ناکامی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، یاد رہے نام و نمود والا کام زیادہ دن نہیں چلا کرتا اور بہت جلد ضائع ہوجاتا ہے ۔جس کی وجہ دنیامیں بھی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اور آخرت کی ذلت ورسوائی وہ الگ ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ (سورہ بینہ:۵)
اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ خدا کی عبادت کریں
’إنَّما الأَعمالُ بالنِّیَّات، وإِنَّمَا لِکُلِّ امرئٍ مَا نَوَى ، فمنْ کانَتْ هجْرَتُهُ إِلَى الله ورَسُولِهِ فهجرتُه إلى الله ورسُولِه، ومنْ کاَنْت هجْرَتُه لدُنْیَا یُصیبُها، أَو امرَأَةٍ یَنْکحُها فهْجْرَتُهُ إلى ما هَاجَر إلیْهِ (متَّفَقٌ عَلَیْہ)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملتا ہے ۔ جس کی اس نے نیت کی ۔ جس کی ہجرت اپنی نیت کے اعتبار سے  اللہ اور اس کی رسول کی طرف ہوگی تو [ اجر اور قبولیت کے اعتبار سے بھی ] اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا یا کسی عورت سے نکاح کی عرض سے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی طرف ہوگی جس کی اس نے نیت کی ۔
 ( بخاری ۔ مسلم )
اور اگر عمل میں اخلاص نہیں محض دنیاوی منفعت اور شہرت مقصود ہےتو اس بارے میں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: 
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَيْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِيْہَا وَہُمْ فِيْہَا لَا يُبْخَسُوْنَ۝۱۵ [١١:١٥] 
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی
اخلاص کی اہمیت:
عن ابی امامۃ قال جاء رجل الیٰ رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم،فقال ارایت رجلا غزایلتمس الاجر والذکر،مالہ ؟قال لا شئ لہ،ثم قال ان اللہ عزوجل لایقبل من العمل الا ما کان لہ خالصاوابتغی واجھہ (ابوداؤد ،نسائی)
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے دریافت کیا ’’ایک آدمی جہا دکرتا ہے آخرت میں اجر پانے کے لیے اور دنیا میں شہرت پانے کے لیے تو کیا اس کو ثواب ملے گا،‘‘تو آپ ﷺ فرمایا’’ اس کو کچھ نہیں ملے گا‘‘۔
سائل نےاس بات کو تین دفعہ دہرایا ،آپ  
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ہر مرتبہ یہی جواب مرحمت فرمایا ۔
آخرمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہو،اسی کی خوشنودی اس عمل کا محرک ہوگی۔
ایک داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ علم کی دولت سے بھی آراستہ ہو ، اس لیے کہ عمل کی تکمیل کا انحصار علم پر ہے، جتنا علم میں رسوخ ہوگا اتنا ہی عمل بھی کامل ہوگا ، اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا۝۰ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۷ (آل عمران:۷) 
اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں
اس لیے ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو رسوخ فی العلم بھی حاصل ہوکیونکہ اگر علم کے بغیر دعوت دی جائے تو وہ زیادہ مفید نہیں ہوتی اور بعض اوقات بجائے فائدہ کے نقصان ہی ہوجاتا ہے، اور مخاطب پر بھی غلط پیغام پہنچتا ہے اور اسلامی تعلیمات سے بدظن ہوجاتا ہے، پھر اس کی اصلاح کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ اس جگہ مجھے اپنے والد محترم حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب نوراللہ مرقدہ کی ایک بات یاد آرہی ہے وہ فرمایا کرتے تھے’’ جو دعوت بغیر علم کے دی جاتی بعض مرتبہ داعی اور مدعا علیہ (مخاطب ) دونوں کے لیےگمراہی کا سبب بن جاتی ہے‘‘چنانچہ علم کی فضیلت وبرتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب آپ  
صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کے اہم فریضہ پہلےسے اقراء کا ہی حکم فرمایا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۝۱ۚ [٩٦:١] 
(اے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا 
علم کے ساتھ عمل بھی ہو تو اس کی برکت اور اثر کچھ اور ہی ہوتا ہے ،اور مخاطب پر اس کا اچھا اثر پڑتا ہے ،اور دعوت بھی جلدقبول کرلیتا ہے۔چنانچہ تبلیغ و دعوت کاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت کا اول مخاطب اپنے آپ کو سمجھے اور دوسروں کو کہنے سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہو ، کیونکہ قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے دعوت کمزور پڑ جاتی ہے اور مخاطب اثر قبول نہیں کرتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ ) (البقرۃ:۴۴(
کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو ۔
اخلاقی شائستگی:ایک داعی کیلئے ضروری ہےکہ وہ اپنے اندر اخلاق کریمانہ اور اخلاق حسنہ پیدا کرےکیوں کہ ، انبیاء کرام علیہم السلام کے اخلاق حسنہ کی وجہ سے ہی لوگوں ان کی دعوت سے متاثر ہوکر ایمان قبول کرلیا کرتے تھے،اور یہی وجہ تھی کہ مخالفین شدید مخالفت کے باوجود ان کی بات سننے پر مجبور ہوتےتھے۔
رسول اللہ  
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
اَکمَلُ المُؤمِنِینَ إِیمَاناً اَحسَنُہُم خُلُقاً۔ (سنن ابی داؤد )
مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہو۔اچھے اخلاق کے بغیرتو دنیاوی کاروبار بھی نہیں چل سکتے چہ جائے کہ دعوت وتبلیغ کا عظیم کام
دعوت وتبلیغ میں حکمت عملی اپنانا ضرور ی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۝۰ۭ  (النحل۱۲۵)
(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔
اس آیت کریمہ میں دو بنیادی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ۔حکمت ودانائی کے ساتھ اگر دعوت دی جائے ، تو وہ زود اثر ہوتی ہے، ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا نظریہ اور اس کااپنا مؤقف انتہائی سنجیدہ ، باوقار اور مدلل ہو، اور لب ولہجہ بھی مشفقانہ اور ہمدردانہ ہو ،اور مخاطب بھی اس کا اثر محسوس کرےاس طریقہ سے بات دل میں جلداتر جاتی ہے،اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے، کہ ناصح مجھے حقیر نہیں سمجھتا یا وہ مجھ اپنی برتری یا بلندی جتلانا نہیں چاہتا بلکہ وہ میری اصلاح کیلئے مخلص ہے ۔یاد رہےحکمت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اپنے مؤقف کو ہی تبدیل کر دیا جائے ،یا خود کا دفاعی پوزیشن میں لے آئے جس سے کہ دعوت کا اصل مقصد ہی فراموش ہوجائے۔یہ طریقہ دعوت کےمنافی ہے۔اس دعوت کو اخلاص والی دعوت نہیں کہیں گے ۔ بلکہ اللہ سے دعاء کرتے ہوئے اپنا موقف اپنے مخا طب کو پیش کرنا چاہئے۔پھر اس میں اللہ کی نصرت بھی شامل ہوجائے گی،او ر پھر ان شاءاللہ مخاطب کے دل میں بھی بات اثر کرے گی۔
ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ لب ولہجہ میں نرمی ہوجس کو قرآن نے’’ قول لین ‘‘ کہا ہے(یعنی نرم گفتگو کرنا)اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت دو اور تاکید فرمائی کہ نرم لہجہ اختیار کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۝۴۴ 
اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے
اور سورۃ النازعات میں قول لین کی وضاحت فرمائی:
:فَقُلْ ہَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى۝۱۸ۙ وَاَہْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى۝۱۹ۚ 
اور (اس سے) کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے؟ اور میں تجھے تیرے پروردگار کا رستہ بتاؤں تاکہ تجھ کو خوف (پیدا) ہو
ایک داعی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت مخاطب کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور موقع محل کے موافق دیجائے ،جس طرح سے ایک ماہر حکیم یا ڈاکٹر مریض کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مرض کی تشخیص کرتا ہے اور پھر دوا تجویز کرتا ہے، یہ نہیں کہ ایک ہی نسخہ یا دوا سب مریضوں کو دنیا شروع کردے نہیں بلکہ وہ مریض کی تمام کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے دوا تجویز کرتا ہے ، اسی طرح دعوت بھی مخاطب کے مزاج اور اطوار کے لحاظ سے دینی چاہیے۔ یہ دھیان رہے کہ ہمارا مخاطب کون ہے، قوم کا سردار ہے، آفیسر ہے ، حاکم ہے۔غریب ہے ،امیر ہے بوڑھا ہے جوان ہے، یا بچہ غرض کہ مخاطب کو ذہن میں رکھ کر کلام کرنا چاہئے اور دعوت دینی چاہئے۔ ، جس طرح رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت نصیحت فرمائی’’ انک ستأتی قوما أہل کتاب لیعرف حالہم ویستعد لہم‘‘’’وہ اہل مکہ کی طرح جاہل نہیں ہیں ان کے حالات معلوم کرنے چاہیے اور ان کیلئے تیاری کرنی چاہیے ‘‘۔دعوت میں آسانی ہونی چاہیے،۔جمع الفوائد میں ہے ،نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ؓ او رابو موسیٰ اشعری ؓ کو یمن بھیجتے وقت یہ نصیحت فرمائی۔
’’ ،یَسِّرَا وَلَاتُعَسِّرَا،وَقَرِّبَ اوَلَاتُنَفِّرَا ‘‘
’’تم دونوں (دین کو ) لوگوں کے لیے آسان بنانا مشکل نہ بنانا لوگوں کو دین کے قریب لانا، ایسا نی کرنا کہ لوگ دین سے بدک جائیں ، دور بھاگیں۔
ایک مبلغ کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ اپنے مخاطب کو دعوت بتدریج پیش کرے ، یک بارگی تمام دعوت پیش نہ کرے۔ بلکہ ابتداً اسلام کے اہم وبنیادی مسائل کی طرف توجہ دلائے ، مثلا اگر کوئی دین سے بہت دور ہوتو اسے دین کے قریب کرنے کی کوشش کرے، لیکن اگر کوئی دین سے توقریب ہےمگر عمل میں کوتاہی کرتا ،ہے تو اس کو عملی طور پر میدان میں اترنے کی ترغیب دے ، اوراگر عملی طور پر کاربند توہے لیکن آگے دعوت پہنچانے میں کوتاہی اور سستی کررہاہے تو پہلے اسکو اس سستی اور غفلت کے نقصانات سے آگاہ اور پھر اس کو دعوت دینےکی طرف راغب کرے۔اس طرح سے منزل بمنزل سلسلہ وار دعوت کے کا م کو بڑھایا جائے ۔اور راتوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا ء مانگے ، کیونکہ بغیر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے کامیابی ملنا ناممکن ہے۔
داعی کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ اپنے کام میں تسلسل اور استقا مت پیدا کرے، اس وجہ سے کہ کوئی بھی کام استقامت اور دوام کو چاہتاہے، چاہے کام تھوڑا ہو لیکن اس میں تسلسل اور دوام ہو ناچاہیے،ایسا نہیں کہ کبھی کرلیا اور کبھی چھوڑدیا، یاد رہے تھواڑا تھوڑا عمل زیادہ پایئداراورمفید ہوتا ہے، کوئی بھی کام صبر واستقامت واستقلا ل کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ خصوصاً دین کاکام تواس کے بغیر ممکن ہی نہیں ، اس لئے داعی کو چاہیے کہ اپنی دعوت پرہونے والے اعتراضات اور دعوت کے دوران پیش آمدہ مصائب پر صبر کرے ہو، صبر واستقلال سے کام جاری رکھے، اسے منقطع نہ ہونے دے اور نہ ہی اکتاہٹ محسوس کرے ، مخالفین کی مخالفت کے باوجود ہمت اور جواں مردی سے کام کرتا رہے ،یاد رہے اگر کوئی داعی لوگوں کی طعن وتشنیع سن کر ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے یہ اس کے حق میں برا ہوگا کیونکہ یہ ایسا ہی ہے کہ گویا اس نے باطل کو غالب اور حق کو مغلوب ہونے میں تعاون کیا اور عنداللہ یہ امر گرفت کا باعث بن سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔
ایک داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال کا اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اس وجہ سے کہ شیطان ایک داعی کا قدم قدم پر دشمن ہوتا ہے ،اور وہ بہت خفیہ طریقہ سے اس پر حملہ آور ہوتا ہے، اس لیے جب بھی فرصت ملے اس کو اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے، اگر کوئی کام غلط ہوگیا ہ تو اس پر استغفار پڑھنا چاہیے اور نیک کا م پر اللہ شکر کرنا چاہیے اور نیکی کی نسبت اللہ ہی کی طرف کرنی چاہیے اور برائی کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہئے اس طرح سے کام میں نورانیت پیدا ہوگی اور کلام بھی میں تاثیر پیدا ہوگی۔محاسبۂ نفس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۸ [٥٩:١٨] 
اے ایمان والوں! خدا سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے کل (یعنی فردائے قیامت) کے لئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور (ہم پھر کہتے ہیں کہ) خدا سے ڈرتے رہو بےشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
نفس کے احوال و کيفیات اور روحانی خطرات کی ہمہ وقت نگرانی کرنا محاسبہ نفس ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا :
احْبِسْ نَفْسَکَ عَنِ الشَّرِّ فإنَّها صَدَقَة تَصَدَّقُ بها علٰی نَفْسِکَ.
’’اپنے نفس کو شر سے بچا کر رکھیں، پس بے شک یہ صدقہ ہے جو جو تمہاری جان پر صدقہ ہے۔‘‘( احمد بن حنبل، المسند، 2 : 511)
لہٰذا اگرایک داعی ان تمام باتوں کو دھیان میں رکھتے ہو ئےدین و اسلام اور قوم و ملت کی خدمت کرے گا تو ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال رہے گی اور دنیا وآخرت میں بھی کامیا بی اس کے نصیب میں ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی قدر کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین یارب العالمین۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
احقر عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری بن جنا ب مفتی عزیزالرحمٰن صاحب ؒ 
.

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.