Thursday, 14 February 2013

22:12

نحمدہ ونصلی علیٰ ر سو لہ الکریم امابعد!
از: عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری
اسلامی لباس کیا ہے؟

وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ۝۰ۭ ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝۰ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الآیہ۝۰ُ۝۷۸ۧ [٢٢:٧٨] (الحج: ۷۸)
ترجمہ: اور اللہ(کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنا کا حق ہے۔ اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں۔ اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو۔ وہی تمہارا دوست ہے۔ اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے
اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۲۶ ٧:٢٦
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں ۔
لباس کا شمار انسان کی بنیادی ضرورتوں میں ہوتا ہےجس کا مقصد انسان کی ستر پوشی اس کی معاشرت ،اوراس کی تہذیب وتمدن اور اس کی شخصیت کو نمایاں کرنا ہے،جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اس وقت سے ہی انسان کا کوئی مخصوص لبا س نہیں رہا ،جیسے جیسے انسانی تہذیب و تمدن ترقی کرتی گئی انسان کا لباس بھی تبدیل ہوتا گیا ،ابتداءً انسان اپنی ستر پوشی درخت کے بڑے پتوں اور درخت کی چھالوں سے کرتا تھا،یا پھر جانوروں کی کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا۔غرض کہ جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی انسان کا طرز زندگی بھی بدلتا گیا ، لیکن ستر ڈھانپنا ہر دور میں رہا(واضح رہے کہ ہم یہاں صرف اسلامی نظریات پیش کررہے ہیں انگریزی یا ڈارون نظریات نہیں )اور ستر کا معیار بھی ہر دور میں جدا گانہ رہا۔
ابتداء میں اسلامی لباس کیا تھا عورتوں کا لباس کیا تھا اور مردوں کا کیا تھا اس بارے میں ہمارے پاس تین انبیاء ورسل علیہم السلام کے واقعات سے کچھ اس طرح اشارہ ملتا ہے۔ایک واقعہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ کا ہے کہ جب اس کی پنڈلی کھل گئی تھی اور دوسرا وقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی دختر نیک اطوار کا ہے ،کہ جب وہ موسیٰ علیہ السلام کی راہنمائی کرر ہی تھی اور تیز ہوا کی وجہ سے ان کا ٹخنہ کھل کھل جارہا تھا تو اس وقت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو اپنے پیچھے آنے کو فرمایا تھا،اور تیسرا واقعہ ہے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ اس جس کی تفصیل سورہ یوسف میں ہے قرآن پاک میں تین جگہ قمیص کا ذکر ہے : اس سے معلوم یہ ہوا کہ اس وقت بھی عورتیں جو زیریں جامہ استعمال کرتی تھیں وہ ٹخنوں سے نیچے ہوا کرتا تھا۔
‘‘وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ’’
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۝۰ۚ  
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اس طرح اگر سابقہ ملتوں کے لباس پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت ستر پوشی کا معیار عورتوں میں قمیص اور زیریں جامہ میں تہبند بھی ہوسکتا ہے اور شلوار بھی مگر اتنا طے ہے کہ اس وقت بھی عورتوں کاٹخنہ ستر میں داخل تھامرد قمیص اور تہبند استعمال فرماتے تھے۔ ان تمام وضاحت سے میرا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ امم سابقہ سے لیکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ تک اور زمانہ رسالت سے کافی بعد تک تمام انسان ڈھیلا ڈھالا ہی لباس پہنتے تھے یہ تو اب آکر تقریبا دوسو سال سے انگریزوں نے اپنی تہذیب وتمدن سے متاثر کرنا شروع کیا جو اس کے خفیہ ایجنڈے میں شامل تھا ، جن کے سامنے صلاح الدین ایوبی کی تاریخ ہوگی اور جنہوں نے انگریزوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہوگا ان پر یہ بات عیاں ہے۔
اب رہی اسلامی تعلیمات کا معاملہ تو سب سے پہلے یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کوئی اگر یہ کہے کہ اسلام کی آمد کے بعد سابقہ شریعت منسوخ تو یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کیوں کہ اسلام نے سابقہ شریعت کو کلیۃً منسوخ نہیں کیا بلکہ اس میں تجدید کی اسلام کوئی نیا دین نہیں یا یہ تو وہی دین ہے جس کو قرآن پاک نےفرمایا:
ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝۰ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۝۰ۚۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝۰ۭ ہُوَمَوْلٰىكُمْ۝۰ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۝۷۸ۧ:٧٨
اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں۔ اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو۔ وہی تمہارا دوست ہے۔ اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے۔  
یہان تین باتیں دھیان دینے کے قابل ہی:  
قُلْ صَدَقَ اللہُ۝۰ۣ فَاتَّبِعُوْا مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۭ (آل عمران 95 )
کہہ دو کہ اللہ نے سچ فرمایا دیا پس دین ابراہیم کی پیروی کرو
’’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا‘‘(النحل ۔ ۱۲۳)
ترجمہ :پھر ہم نے وحی کی تمہاری طرف کہ ملت ابراہیم( علیہ السلام) کی پیروی کرو
(۱): (تمہارے لیے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین پسند کیا گیا۔
(۲): ملت ابراہیم کی پیروی کرو
 (۳): اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے)اب  یہ کہدینا تعجب خیز ہے کہ امم سابقہ سے کوئی مطلب نہیں۔
اب رہی یہ بات کہ ‘‘ لباس التقویٰ’’ کیا ہے
،لباس تقویٰ سے مراد ایسا لباس جس میں خشیت الٰہی موجود ہو لباس کے بارے میں جوشرعی ہدایات ہیں ان کی پاسداری کرنا، اگر کوئی بہ ظاہر عالم ِدین شخص بھی اسلامی لباس کی حدود پر کاربند نہیں ہے تو اس کی اس معاملے میں پیروی نہیں کی جائے گی۔ نیز انسان جس قوم کا لباس پہنتا ہے۔ اسی سے اس کی مشابہت ہوتی ہے۔ متقیوں یا اہل علم کا سا لباس پہننے سے انسان متقی نظر آتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ جس طبقے کا لباس پہنتا ہے، اس جیسے کام بھی کرے۔ غیر مسلموں، فاسقوں اور آبرو باختہ عورتوں جیسا لباس پہن کر ان سے محبت بڑھتی ہے اور ان جیسی عادات پیدا ہوتی ہیں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا: ’’المرء مع من احب۔‘‘’’انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس کو وہ پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) اسلامی حدود کے مطابق لباس پہننے والوں میں (صحاکرام ؓبہ، امہات المومنینؓ، متقین ومومنینؒ) وغیرہ شامل ہیں ان کی محبت اور معیت دنیا میں بھی نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی۔ان شاءاللہ
اب شرعی لباس کیا ہے اور اس بارے میں اکابر دین علماء عظام کی چند آراء اور چند فتووں کا ذکر کیا جاتاہے۔
اول : لباس ستر چھپانے والا ہو۔ مرد کے لیے ستر ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصۂ جسم ہے اور عورت کے لیے اس کے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ مکمل جسم ستر ہے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ لباس اتنا باریک اور چست نہ ہو کہ اعضاء جسم نمایاں ہوں۔
دوم: مردوں کے لیے عورتوں کے لباس پہننا اور عورتوں کے لیے مردوں کے لباس پہننا ممنوع ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت کی ہے‘‘۔(بخاری:۵۸۸۵) احادیث میں مردوں کے لیے ریشم اور سرخ رنگ کا لباس، اسی طرح سونے کا زیور، زنجیر، انگوٹھی وغیرہ پہننے کی ممانعت آئی ہے۔
سوم: احادیث میں مردوں کا زیریں لباس ٹخنوں سے نیچے ہو نا چاہئے۔ اس سلسلے میں سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الاِزَارِ فِی النَّارِ(بخاری: ۵۷۸۷
تہبند کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ آگ میں ہوگا۔
ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَایَنْظُرُاللّٰہُ اِلٰی مَنْ جَرَّ اِزَارَہ بَطْراً۔ (بخاری: ۵۷۸۸، مسلم: ۲۰۸۷)
اللہ اس شخص کی جانب نگاہ نہیں اٹھائے گا جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند گھسیٹ کر چلے گا۔
چہارم:ا یسا لباس پہننے کی بھی ممانعت ہے، جو کسی غیر مسلم قوم کا شعار ہو، یا اسے پہن کر آدمی غیر مسلم قوم کا فرد معلوم ہو
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمِ فَھُوَمِنْہُمْ۔ (ابوداؤد: ۴۰۳۱)
جس نےجس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انھی میں سے ہے۔
·       دراصل جب کوئی شخص جب کسی دوسری قوم کا وہ لباس اختیار کرتاہے جو اس قوم کی شناخت اور امتیاز ہے تو وہ درحقیقت اپنی عظمت ،عزت اور برتری کو اس قوم کے لباس اختیار کرنے میں ہی محسوس کرتاہے اور اپنے لباس میں رہنا ،اپنے متعلق حقارت اور کمتری وسبکی محسوس کرتاہے ۔گویایہ شخص شدید قسم کے احساس کمتری اور شکست خوردگی میں مبتلا ہے ۔ اسلئے یہ اصول مقرر کیا گیا کہ دوسری کسی بھی قوم کا وہ لباس جسے پہن کر مسلمان اُسی قوم کا فرد محسوس ہونے لگے ،اسلام کی رو سے غیر اسلامی لباس ہے اسلئے اس سے اجتناب کا حکم ہے ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اہتمام سے ان تمام امور سے بچنے کا حکم فرماتے تھے جس سے مسلم تہذیب مٹ جائے اور دوسری قوموں کی تہذیب کے مسلمان متوالے بن جائیں ۔ تہذیب کا آغاز لباس اور جسمانی وضع قطع سے ہی ہوتاہے ۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان عورت ساڑھی باندھے تو ہر دیکھنے والا شخص ضرور اس کا یقین کرے گا کہ یہ غیر مسلم عورت ہے ۔ یا اسی طرح سے غیر مسلم عید کے دنوں میں خاص کرتا پائجامہ پہن کر بھیک مانگتے ہیں اور مسلمان اس کو مسلمان سمجھ کر ہی صدقہ دیتے ہیں اسی طرح اگر ایک مسلمان کی کلائی پر کڑاباندھتا ہو تو یہ وہم گذرنے لگے گا کہ یہ شخص شاید غیر مسلم ہےکیونکہ کڑا استعمال کرنا انہی کا مخصوص فعل ہے ایسے ہی اگر کوئی آدمی داڑھی والا جیسا کہ سکھ لوگ رکھتے ہیں جب وہ برصغیر سے باہر گلف وغیرہ ملازمت کے لیے جاتے ہیں عرب لوگ اس کو مسلمان ہی سمجھ تے ہیں اور ایسے واقعات بھی سننے کو ملے ہیں کہ سعودی عرب میں وہاں ’’متووں‘‘نے ان سے زبرستی نماز پڑھوائی ہے یا بیچارے بہت کہتے تھے ’’یااللہ سیکھ سیکھ’’  وہ متوے کہتے’’ مافی شیخ شیخ اول صلوٰہ بعدہ شیخ‘‘ غرض کہ ان سکھوں کو نماز پڑھنی پڑتی تھی ۔اس اصول کا خلاصہ یہ نکلے گا مسلمان نہ یہود ونصاری کا لباس پہن سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قوم اور مذہب کے لباس کی نقالی کرسکتے ہیں اور اگر ایسا لباس اختیار کیاگیا تو وہ غیرشرعی لباس ہوگا ۔
شیطان کا یہ اولین مقصد ہے کہ وہ انسان کو برہنہ اور بے حیا بنادے ۔ شیطان ازل سے لے کر اب تک اسی کوشش میں مصروف ہے اور وہ مختلف طریقوں سے ابن آدم پر حملے کرتا چلا آرہا ہے۔
اس نے انسان سے حیا کی صفت چھیننے کے لیے ایک خفیہ اور پرفریب چال چلی۔ اس نے انسان کا لباس اتروانے کی بجائے اسے ایسے فیشنوں سے متعارف کروایا جو اس کے مقاصد میں شامل تھا ۔ ان فیشنوں کی وجہ سے لباس ستر پوشی کے بجائے برہنگی، زیب وزینت کی بجائے اوچھا پن،اور تقویٰ کی بجائے بے ہودگی کی علامت بن گیا۔
‘‘تشبہ بقوم‘‘ : میں آج یہ بات بھی شامل ہوگئی کہ مسلمانوں کے سر سے ’’ٹوپی ‘ ‘ یا’’ پگڑی‘‘ بھی غائب ہوگئی اب اس کی جگہ فیشن والی کیپ نے لے لی ہے اور اب تو نماز بھی سر کھلے ہی ہونے لگی ہے۔
منقش کپڑے بھی تشبہ بقومٍ میں شمار ہیں:
جن کپڑوں پر کسی غیر مسلم کے مذہبی شعار کی تصویر ہو یا کسی جانور کی تصویر ہو وہ لباس اور ایسی ہر چیز کا استعمال کرنا درست نہیں البتہ اگران سے نقوش مٹادئے جائیں تو پھر استعمال کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے
’’جس چیز پر صلیب ہوتی آپ اسے توڑے بغیر نہ چھوڑتے۔‘‘ [بخاری، کتاب اللباس:۴۱۵۱، باب نقض الصور، سنن ابی داؤد]
اسی طرح سےجس لباس پر انگلش حروف نمایاں الفاظ میں اور نمایاں حصوں پر لکھے ہوں، ان کو بھی پہننے سے گریز کرنا بہتر ہے کیوں کہ دورِ حاضر میں انگلش بولنے والی قوم اور انگلش تہذیب سےمشابہت ہے۔ اس سے ان کی زبان سے محبت ظاہر ہوتی ہے نیز اس زبان کی اشاعت بھی ہوتی ہے۔ اور ان کےکی تہذیب کو تقویت پہونچتی ہے ،اس لیے ایسے لباس سے یہ حروف مٹادینے چاہئے۔
اس طرح سے ٹی شرٹ پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں غیر مسلموں کی مشابہت ہےاور جس بھی نمایاں ہوتا ہے۔
کیا پینٹ شرٹ اسلامی لباس: پینٹ شرٹ اسلامی لباس نہیں ہے ۔اس پر تما م علماء عرب کے ہوں یا عجم کے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اسلامی لباس نہیں ہے ۔البتہ یہ فرماتے ہیں اب چونکہ اس لباس کو تقریبا تمام عالم کے مسلمانوں نے اپنا لیا ہے اس لیے یہ لباس عرف میں داخل ہوگیا ہےبعض علماء نے گلف کے بعض علماء نے اس کو مجبوری کی حالت میں پہننے کی اجازت دی ہے،(جیسا کہ آگے آتا ہے) ،
لہٰذا پینٹ شرٹ کے بارے تمام علماء متفقہ طور پر یہ کہا ہے کہ اگر یہ ڈھیلی ہیں اور جسم انسانی کو اس طور پر ڈھانپ لیتی ہیں کہ جس اعضاء نمایاں نہ ہوں اور نماز پڑھنے میں کوئی پریشانی نہ ہوتو ان شرطوں کے ساتھ اس لباس کا پہنناجائز ہے ،البتہ کسی نے بھی اس کو اسلامی لباس نہیں کہا ہے۔
چند فتا وٰی:
’’عورت کے لباس کے سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ وہ لباس غیر قوم کا شعار نہ ہو، فیشن کے طور پر نہ پہنا جاتا ہو، اس سے ستر پوشی بدرجہ اتم ہوجاتی ہو، اگر کسی لباس میں مذکورہ بالا باتوں میں کوئی بات نہ پائی جائے تو پھر اس کا پہننا درست نہ ہوگا۔ ساڑھی اگر وہاں غیر قوم کا شعار نہ ہو اور سترپوشی کامل طریقے پر ہوجاتی ہو تو اس کے پہنے کی اجازت ہوگی، لہنگا کے بارے میں جہاں تک میرا خیال ہے چونکہ وہ فیشن پرست عورتیں پہنتی ہیں، اس لیے اس کا پہننا جائز نہیں۔ جہاں تک مردوں کے پینٹ شرٹ پہنے کا مسئلہ ہے تو چونکہ اب یہ لباس کسی خاص قوم کا شعار نہیں رہا اس لیے اس کی وجہ سے اس کا پہننا ممنوع نہیں البتہ وہ فساق وفجار کا لباس اب بھی ہے اس وجہ سے اس کا پہننا مکروہ ہوگا، واضح رہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ اس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو اور اگر پینٹ اتنی چست ہو کہ اس سے اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کا پہننا حرام ہوگا۔‘‘(برقی فتویٰ نمبر:فتوی: 1177=1026/ ل
لباس کا مطلب ہے جسم کی بناوٹ کو چھپانا ، چاہے مرد ہو یا عورت دونوں کا ایک ہی حکم ہے جس طرح عورت کا جسم میں مرد کے لیے کشش کا باعث ہے اسی طرح مرد کا جسم عورت کے لیے باعث کشش ہے ۔ایسا نہیں کہ عورت چست کپڑا پہنے توناجائز اور مرد پہنے تو جائز،مرد کا سینہ اور بازو اور زیرناف کا حصہ باعث کشش ہوتا ہے یہی وجہ کہ ’’امرِد‘‘ کے برابر میں کھڑا ہونا اس آدمی کے لیے مکروہ ہے جس کا اپنی شہوت پر قدرت نہ ہواور یہی وجہ ہے کہ’’ امرد ‘‘کی امامت مکروہ ہے، کیونکہ اس میں نسوانیت کا عنصر موجود ہوتا ہے اور اس میں شہوت کے دواعی موجود ہوتے ہیں۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: لعن النبی المخنثین من الرجال والمترجلات من النساء‘ وقال: اخرجوہم من بیوتکم “۔ (مشکوٰة ‘ ص:۳۸۰‘ ط:قدیمی)
وفی المرقاة: لعن النبیا المخنثین ای المشتبہین بالنساء من الرجال فی الزی واللباس والخضاب والصوت والصورة والتکلم وسائر الحرکات والسکنات‘ فہذا الفعل منہی‘ لانہ تغییر لخلق اللہ“۔(مرقاة ج:۴‘ ص:۴۵۹ ط: المکتبة الاسلامیة
اسلام نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص قسم کا لباس متعین نہیں کیا ہے بلکہ کچھ قیود بیان کی ہیں ان کوملحوظ رکھتے ہو ئے جو لباس پہنا جائے گا وہ شرعی ہوگا۔ مرد کے لئے ریشم کا لباس کفار وفساق اور متکبرین کے مشابہ لباس، ٹخنوں سے نیچے اور عورتوں سے مشابہ لباس پہننا ممنوع ہے۔ اس طرح کے لباس سے احتیاط ضروری ہے قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: من لبس الحریر في الدنیا لم یلبسہ في الآخرة (متفق علیہ مشکوة ص373) من تشبہ بقوم فھو منھم (رواہ احمد وابوداؤد ومشکوة: ص375) ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار (متفق علیہ مشکوة ص373) لعن اللّہ المتشبھین من الرجال بالنساء (رواہ البخاری مشکوة ص380)
 البتہ جو لباس سنت سے ثابت ہے یا صلحا نے جس لباس کو اختیار فرمایا اس لباس کا اختیار کرنا یقینا زیادہ افضل ہے مارآہ المسلون حسنا فھو عند اللّہ حسن۔ (فتوى: 230/ل=230/ل
احادیث میں لباس کے سلسلے میں چندشرائط مذکور ہیں۔ غیر مسلم قوم کا شعار نہ ہو، عورتوں کے لباس سے مشابہت نہ رکھتا ہو، ٹخنے سے نیچے نہ لٹکتا ہو، اس قدر باریک نہ ہو کہ واجب الستر اعضا نظرآئیں، اتنا چست نہ ہو کہ واجب الستر اعضاء کا حجم اور اس کی بناوٹ نمایاں ہو۔ جس لباس میں یہ شرائط پائی جائیں اس کا پہننا درست ہے۔ شرٹ اور پینٹ اگر اس قدر چست نہ ہو کہ واجب الستر اعضاء کا حجم اور بناوٹ نمایاں ہو اور نہ ہی ٹخنے سے نیچے لٹکتا ہو تواس کا پہننا درست ہے۔ البتہ اولی بہرحال یہی ہے کہ صلحاء اور اتقیاء کا لباس اختیار کیا جائے۔ (فتوی: 907=1029/ ب)
جو لباس سنت سے ثابت ہو، یا جس لباس کا سنت میں ذکر نہ ہو مگر اس کو صلحاء نے اختیار کیا ہو نیز وہ کفار وفساق کا شعار نہ ہو، اس میں اسراف وتبذیر نہ ہو، فخر وتکبر دکھلاوا مقصود نہ ہو، مردوں کا لباس عورتوں کے، عورتوں کا مردوں کے مشابہ نہ ہو اور ایسا باریک وتنگ نہ ہو کہ جس سے جسم کی بناوٹ نمایاں ہو، ایسا لباس شرعی لباس ہے۔ (فتوی: 599=553/ب)
اگر کوئی لباس اتنا چست و تنگ ہوکہ اس کو پہن کر واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کا پہننا بالکل ناجائز ہے۔ (فتوى: 539/ن = 528/ن)
ایسا چست لباس پہننا جس سے اعضائے مخفیہ کی شکل نظر آئے حرام ہے، اس طور پر اعضاء مخفیہ کا دکھانا بھی حرام اور دیکھنا بھی حرام، اگرچہ بلاشہوت ہو، ایسا لباس اگر اتناباریک ہو کہ اس میں سے بدن کا رنگ نظر آتا ہو تو اس میں اگرچہ نماز کا فرض ادا ہوجائے گا، مگر حرام لباس میں نماز مکروہ ہوگی۔ (احسن الفتاویٰ: ۳/۴۰۳ بحوالہ دارُالعلوم دیوبند فتوی(ل): 1449=1023-10/1431)
 اگرجسم کا خفیف حصہ نظرآئے یاکھل جائے تونماز باطل ہوجائے گی نماز میں اگر کوئی جسم کا حصہ کھل جائے جس کو ڈھانکنا ضروری ہے تو اگر وہ اتنی دیر کھلا رہے جتنی دیر میں نماز کا ایک رکن ادا ہوسکتا ہے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
ویُفسدھا أداء رکن حقیقةً اتفاقًا، أو تمکنہ منہ بسنة، وھو قدر ثلاث تسبیحات مع کشف عورة أو نجاستہ الخ (درمختار
کہنیوں کا کھلنا نماز میں مکروہ ہے۔رکوع اور سجدہ کرتے وقت کولھے کے اوپر کمر کے بعض حصہ کا کھل جانے سے بسا اوقات نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے۔ (فتوی(د): 193=169-2/1431
بزرگان دین، علمائے حق جو لباس پہنتے ہیں کرتا پاجامہ ٹوپی یہی سنتی لباس ہے، پینٹ، شرٹ یہ فساق وفجار کا اور غیرقوموں کا لباس ہے، یہ سنتی لباس نہیں ہے، پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر رکھا جائے تو بحق عوام یہ مباح ہوجائے گا، مگر سنتی لباس نہ ہوگا۔ (فتوی دیوبند ۶۱۱۔بی۔۵۔۱۴۳۳۔۵۳۲
ٹی شرٹ(آدھی آستین) خلاف سنت لباس ہے، اس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس سے ثواب میں کمی ہوگی۔ (فتوی: 1147=1147/م
پینٹ کوٹ اگرچہ عام لباس ہوگیا ہے کسی کا قومی یا مذہبی لباس نہ رہا اس بنا پر اگرچہ اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاتا تاہم فساق و فجار کا لباس ہونے کی وجہ سے اسے مکروہ لباس کہا جاتا ہے، اور صلحا کا لباس نہ ہونے کی وجہ سے اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ (فتوی: 1493/ ب= 1320/ ب)
بزرگان دین، علمائے حق جو لباس پہنتے ہیں کرتا پاجامہ ٹوپی یہی سنتی لباس ہے، پینٹ، شرٹ یہ فساق وفجار کا اور غیرقوموں کا لباس ہے، یہ سنتی لباس نہیں ہے، پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر رکھا جائے تو بحق عوام یہ مباح ہوجائے گا، مگر سنتی لباس نہ ہوگا۔ (فتوی: 611-532
اگر کوئی لباس اتنا چست و تنگ ہوکہ اس کو پہن کر واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کا پہننا بالکل ناجائز ہے۔ (فتوى: 539/ن = 528/ن)
ایسا چست لباس پہننا جس سے اعضائے مخفیہ کی شکل نظر آئے حرام ہے، اس طور پر اعضاء مخفیہ کا دکھانا بھی حرام اور دیکھنا بھی حرام، اگرچہ بلاشہوت ہو، ایسا لباس اگر اتناباریک ہو کہ اس میں سے بدن کا رنگ نظر آتا ہو تو اس میں اگرچہ نماز کا فرض ادا ہوجائے گا، مگر حرام لباس میں نماز مکروہ ہوگی۔ (احسن الفتاویٰ: ۳/۴۰۳ بحوالہ دارُالعلوم دیوبند فتوی(ل): 1449=1023-10/1431)
اور کلیہ ہے ’’للاکثر حکم الکل.‘‘ اکثر پر کل کا حکم لگتا ہے۔ جب اکثریت ڈھیلا ڈھالا لباس پہننے لگے گی اس وقت سوچا جائے گا اس وقت جس میں تلویث ہے اس پر یہی فتویٰ نافذ ہوگا۔
سعودی عرب کے چند ممتاز علماء کے فتاویٰ کا خلاصہ:
ان حضرات نے یہ اعترف کیا ہے کہ یہ لباس کبھی غیر مسلموں کا ہوا کرتا تھا لیکن چونکہ اب مسلمانوں کی اکثریت نے اس کواپنا لیا ہے تو چند شرطوں کے ساتھ ان کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں کہ کپڑے ڈھیلے ڈھالے ہوجن سے جسم ڈھک جائے اور جسم کا کوئی حصہ نمایاں نہ ہو۔ البتہ عورتوں کے لیے منع فرمایا ہے۔ اور یہ بھی واضح فرمایا کہ اگر کوئی معاملہ مجبوری کا تنگی کا آجائے تو اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے ۔لیکن آخر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ اس کو نہ پہنیں جب تک اس کا محرک نہ ہو یعنی اس کو مجبورآ پہننے کی اجازت ہے۔
-’’أما لبس البنطلون فلست أراه من التشبه لأنه زي غلب على ديار المسلمين وكما في القاعدة الفقهية إذا ضاق الأمر اتسع ومع ذلك ففيه حرج من جهة الصلاة فيه ولذلك أرى ألا يلبسه المسلم اذا لم يكن هناك داع اليه‘‘
علماء کے اسماء گرامی:
الشيخ الدكتور سليمان بن سليم الله الرحيلي - حفظه الله
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
الشیخ صالح فوزان
الشیخ محمد بن صالح العثیمین (وغیرھم)
اسلامی لباس کیا ہے
احادیث مبارکہ میں ہے کہ آپ ﷺ کو قمیص زیادہ پسند تھی اور جبہ بھی استعمال فرمایا کرتے تھے،ایک مرتبہ پائجامہ بھی خریدا تھا اور اس کو پسند بھی فرمایا تھا ،صحابہ کرام بھی قمیص اور تہبند زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ذیل میں ’’ سیرت خیر العباد ، ترجمہ زادلمعاد ‘‘ مترجم مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری،سے حضورﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے لباس خلاصہ پیش کرتا ہوں،آپﷺ نے عمامہ بھی باندھا ہے ،اور ٹوپی بغیر عمامہ کے بھی پہنی ہے،آپ ﷺ قمیص بھی پہنی اور یہ آپ کو بہت پسند تھی،اس کی آستین پہونچوں تک ہوتی تھی،جبہ اور فروج بھی استعمال فرمایایہ قبا کے زیادہ مشابہ تھا،تہبند اور چادر بھی استعمال فرمائی،اور یہ بھی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے پائجامہ بھی خریدا تھا ،اور صحابہ کرام ؓ تو آپ ﷺ کی اجازت سے پائجامہ ہی پہنا کرتے تھے،،اور یہی لباس صحابہ کرامؓ کا ہوا کرتا تھا۔ آپ ﷺ کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تویہ دعاء پڑ ھتے تھے:
اللہم انت کسوتنی ھذا القمیص اولرداء اوالعمامۃ اسئلک خیرہ وخیر ما صنع لہ واعوذبک شرہ وشر ما صنع لہ
اے اللہ آپ ہی نے مجھے یہ قمیص یا چادر یا عمامہ پہنایا ہے اس کی بھلائی اور جس کے لیے بنی اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی برائی اور جس برائی کے لیے یہ ہو اس کی پناہ چاہتا ہوں(ص:۱۰۸تاص:۱۱۶)
عرف اور سنن زوائد اور سنن ہدیٰ
پینٹ شرٹ کے حامی حضرات یہ دلیل؛ دیتے ہیں کہ اب پینٹ شرٹ عرف میں داخل ہوگئی ہے اور اسلام نے کسی خاص طرز کے لباس کا تعارف نہیں کرایا ہے اور یہ ایسی سنت ہے جس سنن زوائد کہا جاتا ہے یعنی کرلیا تو اچھا نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں،بیشک ان کی یہ دونوں باتیں سر آنکھوں پر لیکن اگر عرف کو عام کردیا جائے تو آج کل بیشمار بدعتیں رائج ہیں جو عرف میں داخل ہوگئی ہیں ’’ٹائی باندھنا، سلام کی بجائے ہیلو ، کہنا اللہ حافظ کی جگہ بائے بائے کہنا،کھڑے ہوکر پیشاب کرنا، ہاتھ میں ڈورا باندھنا،کھڑے ہوکر کھانا کھانا،بائیں ہاتھ سے کھانا پینا،آم کی فصل بور پرہی(پھل آنے سے پہلے)خرید لینا۔
آج کل یہ بھی عرف میں داخل ہوگیا ہے کہ بچوں کا نام اسلامی نام نہ ہوکرغیر مسلموں والے انداز میں ہونا،یا اگر اسلامی نام بھی ہوںگے فلمی ہیروز کے نام پر رکھے جائیں گے
اس سے بڑھ کر یہ بھی عرف میں داخل ہوگیا ہے کہ والدین کے نام’’ابا‘‘’’ابو‘‘ ابی‘‘ کی جگہ دیڈ ،ڈیڈی، پاپا، وغیرہ نے لے لی ہےاسی طرح ’’امی‘‘’’اماں‘‘ کی جگہ ۔ مم،ممی وغیرہ ناموں نے لے لی ہے۔
یاد رہے عرف کا معیار علماء، صلحاء،یا اتقیاء ہوتے ہیں ان کاعمل ہی اسلام کا نمونہ اور معیار ہوتا ہے ،جہلاء یا عوام نہیں ہوا کرتے ،یہی ہر جگہ کا عرف کہلائے گا ۔ واضح رہے ہر قوم کا شعار ہوتا ہے اس سے قوموں کے تمدن و تہذیب کا پتہ چلتا ہےاور لباس ہی شخصیت کو نمایاں کرتا ہےجس طرح سے کہ پولس والا فوجی کی ڈریس نہیں پہن سکتا ایک وکیل جج کی ڈریس نہیں پہن سکتا،یہ بھی منع ہے کہ عام آدمی عالموں جیسا حلیہ بنائے کہ لوگوں کو اس کا عالم ہونے کا گمان ہو اور وہ کوئی غلطی کرے تو لوگ اس کو عالم سمجھ کر علماء سے بدظن ہوجائیں، کسی بڑے عالم نے کہا ہے ’’جو قوم اپنے تہذیب وتمدن کی حفاظت نہیں کرپاتی وہ قوم فنا ہوجاتی ہے اگررہتی بھی ہے تو اس کی حیثیت غلاموں کی سی ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام
پینٹ شرٹ کی جو موجودہ شکل ہے اس کا استعمال کرنا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں کیوں کہ اس میں جسم پر کپڑہ ہونے کے باوجود بھی جسم کے اعضاء نمایاں ہوتے ہیں
ہاں اگر کسی کی پینٹ شرٹ ڈھلی ڈھالی ہو جسم نمایاں نہ ہوں اور پینٹ ٹخنوں سے نیچی نہ ہو اور شرٹ سرین کو ڈھانپ رہی ہو،یا کہیں عذر ہو اور مجبوراً پہننی پڑ رہی ہو اور منقش نہ ہو (تصویر ،اور اشتھار وغیرہ) تو جائز ہے فقط واللہ اعلم بالصواب
عابدالرحمٰن بجنوری



0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.