از:مفتی عابدالرحمٰن مظاری بجنوری
مكارم الاخلاق
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۱ [٤٩:١]
مومنو! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سنتا جانتا ہے
محترم قارئین کرام!
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور اس کا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اسلامی گھرانوں میں پیدا فرمایا اور اس کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت سرفراز فرمایا ،اور تمام امتوں کا سردار بنایا،اس وجہ سے کہ یہ امت لوگوں کو خیر کی بات بتاتی ہے ،اچھی باتوں کا حکم دیتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے،اور اللہ کی زمین میں امن سکون کا پرچار یعنی سلامتی اور بھلائی کی تعلیم دیتی ہے ۔اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہے ،اور یہی ہمارے آقائے نامدار احمد مصطفےٰﷺ کی تعلیمات ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگوں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو اس وجہ سےکہ مجھے بھیجا ہی اسی لیے گیا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:
انما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق -
مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا-(سنن کبری للبیہقی،ج:10،ص:192)
نمونہ اخلاق سرور کائنات کے اخلاق کی تصدیق وتحسین اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی:
إنك لعلٰى خلق عظيم
بےشک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بلند ترین درجۂ اخلاق فائز ہیں۔
یہ آپﷺ کے خلق عظیم کا ہی کارنامہ ہے کہ اسلام پوری دنیا میں پھیل گیااور آج دنیا کا واحد اور مقبول ترین مذہب ہے۔
اسلام اور انسان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،اسلام کے بغیر انسان نہیں اور انسان کے بغیر اسلام نہیں۔اسلام کا مطلب ہے ’’سلامتی اور امن والا راستہ یا مذہب‘‘اور انسان کا مطلب ہے’’ اُنس، انیس ،یعنی جس میں انسیت ہو،بھائی چارگی ہو محبت ہو،وہ انسان ہی نہیں جس میں پیار محبت اخلاقیات نہ ہوں اس کے گفتار میں نرمی ہو اس کا کردار اعلیٰ ہو ،بڑوں کا ادب کرتا ہو چھوٹوں پر شفقت کرتا ہو ۔فرمان رسالت ماٰب ﷺ ہے :
لیس منا من لم یرحم صغیرنا و لم یوقر کبیرنا
وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے۔
(حضرت عمر ؓ) اتقوا من تبغضہ قلوبکم اعقل الناس اعذرھم للناس۔
"جس سے تم کو نفرت ہو اس سے ڈرتے رہو۔ سب سے زیادہ عاقل وہ شخص ہے جو اچھی تاویل کر سکتا ہو۔
امام مالک ؒ کا وقعہ ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت ابوجعفر نے آپ سے مناظرہ کیا اور اپنی آواز بلند کی تو امام مالک ؒ نے اس سے کہا’’آپ اپنی آواز بلند نہ کریںکیوںکہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو ادب سکھایاہےکہ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۲ [٤٩:٢]
اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو
اور ایک قوم کی مدح کی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَ غُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰى۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۳ [٤٩:٣]
جو لوگ پیغمبر خدا کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیںاللہ نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزما لئے ہیں۔ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے
اور ایک قوم کی مذمت کی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۴ [٤٩:٤]
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
جب یہ آیات شریفہ نازل ہوئیں تو حضرت عمر ؓ نےحضورﷺ کے سامنے اپنی آواز کوتاحیات النبیﷺ پست کرلیا تھا اور اتنا پست کرلیا تھا کہ نبی کریم ﷺ کو دوبارہ معلوم کرنا پڑتا تھا۔اور اسی طرح صحابہ کرام بھی یہ سوچنے لگے تھے کہ ہمارا ایمان تو گیاہماری تو زندگی ہی بیکار ہوگئی وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال یہ سب باتیں محبت والوں کی ہیں اور جس کو جس سے محبت ہوجاتی ہے وہ اسی طرح سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ یہاں میں عرض کردوں کہ ’’خلیل‘‘ اور’’ حبیب ‘‘ میں فرق ہے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے علاوہ دیگر انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو ’’خلیل‘‘ کہہ کر خطاب کیا ۔جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل کہہ کر خطاب فرمایا۔اور سرور کائنات ﷺ کو حبیب کہہ کر خظاب فرمایا،لفظ ’’حبیب ‘‘میں’’ خلیل‘‘ کے مقابلہ زیادہ محبت جھلکتی ہے۔اس کا ثبوت یہ کہ جس کو کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اس کو نام لیکر نہیں پکارتا جیسا کہ ایک بیوی اپنے شوہر کو’’ عبداللہ کے ابا‘‘یا شوہر اپنی بیوی کو’’ عبداللہ کی اماں‘‘ وغیرہ نام سے پکارتا ہے ۔یہ محبت کا نرالا انداز ہوتا ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو نام لیکر پکارا لیکن اپنے ’’حبیب‘‘ ﷺ کو نام لیکر نہیں پکارا بلکہ یوں کہا’’یاایھا المدثر‘‘’’یاایھا المزمل‘‘’’یایھاالنبی‘‘ ’’یاایھاالرسول‘‘ کبھی ’’یٰسین ‘‘وغیرہ کہہ کر خطاب فرمایااور ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسم کھائی ،فرمایا:
لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون
تیری جان کی قسم وہ کافر اپنے نشے میں اندھے ہورہے ہیں
جمہور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حضور ﷺ کی حیات طیبہ کی قسم ہے۔چنانچہ ’’ محب بمحبوب سوگند می خورند ومی گوید ’’بسر تو وحیات تو‘‘
الغرض محبت خود آداب محبت سکھا دیتی ہے یہ کسی سے سیکھا نہیں جاتا ۔جتنا جس سے جتنی قربت اور محبت ہوگی وہ اتنا ہی مؤدب اور با اخلاق ہوگا۔
میں نے اوپر عرض کیا تھا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کائنات کا معلم بنا کراور مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایاتھا،اور یہی اس امت کی خاصیت ہے جو بھی سچا امتی ہوگا وہ اخلاقیات کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے گا۔بڑوں کا احرام کرنے والا ہوگا اور چھوٹوں پر شفقت کرنے والا ہوگا۔اسی وجہ اس امت کو تمام امتوں کےسردار کے خطاب سے نوازہ گیا۔اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو معمار قوم کہا جاتا ہے اور یہ مقام بغیر مہذب ہوئے یا بغیر مؤدب ہوئے حاصل نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے
مومنو! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سنتا جانتا ہے
محترم قارئین کرام!
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور اس کا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اسلامی گھرانوں میں پیدا فرمایا اور اس کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت سرفراز فرمایا ،اور تمام امتوں کا سردار بنایا،اس وجہ سے کہ یہ امت لوگوں کو خیر کی بات بتاتی ہے ،اچھی باتوں کا حکم دیتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے،اور اللہ کی زمین میں امن سکون کا پرچار یعنی سلامتی اور بھلائی کی تعلیم دیتی ہے ۔اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہے ،اور یہی ہمارے آقائے نامدار احمد مصطفےٰﷺ کی تعلیمات ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگوں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو اس وجہ سےکہ مجھے بھیجا ہی اسی لیے گیا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:
انما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق -
مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا-(سنن کبری للبیہقی،ج:10،ص:192)
نمونہ اخلاق سرور کائنات کے اخلاق کی تصدیق وتحسین اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی:
إنك لعلٰى خلق عظيم
بےشک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بلند ترین درجۂ اخلاق فائز ہیں۔
یہ آپﷺ کے خلق عظیم کا ہی کارنامہ ہے کہ اسلام پوری دنیا میں پھیل گیااور آج دنیا کا واحد اور مقبول ترین مذہب ہے۔
اسلام اور انسان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،اسلام کے بغیر انسان نہیں اور انسان کے بغیر اسلام نہیں۔اسلام کا مطلب ہے ’’سلامتی اور امن والا راستہ یا مذہب‘‘اور انسان کا مطلب ہے’’ اُنس، انیس ،یعنی جس میں انسیت ہو،بھائی چارگی ہو محبت ہو،وہ انسان ہی نہیں جس میں پیار محبت اخلاقیات نہ ہوں اس کے گفتار میں نرمی ہو اس کا کردار اعلیٰ ہو ،بڑوں کا ادب کرتا ہو چھوٹوں پر شفقت کرتا ہو ۔فرمان رسالت ماٰب ﷺ ہے :
لیس منا من لم یرحم صغیرنا و لم یوقر کبیرنا
وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے۔
(حضرت عمر ؓ) اتقوا من تبغضہ قلوبکم اعقل الناس اعذرھم للناس۔
"جس سے تم کو نفرت ہو اس سے ڈرتے رہو۔ سب سے زیادہ عاقل وہ شخص ہے جو اچھی تاویل کر سکتا ہو۔
امام مالک ؒ کا وقعہ ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت ابوجعفر نے آپ سے مناظرہ کیا اور اپنی آواز بلند کی تو امام مالک ؒ نے اس سے کہا’’آپ اپنی آواز بلند نہ کریںکیوںکہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو ادب سکھایاہےکہ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۲ [٤٩:٢]
اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو
اور ایک قوم کی مدح کی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَ غُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰى۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۳ [٤٩:٣]
جو لوگ پیغمبر خدا کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیںاللہ نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزما لئے ہیں۔ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے
اور ایک قوم کی مذمت کی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۴ [٤٩:٤]
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
جب یہ آیات شریفہ نازل ہوئیں تو حضرت عمر ؓ نےحضورﷺ کے سامنے اپنی آواز کوتاحیات النبیﷺ پست کرلیا تھا اور اتنا پست کرلیا تھا کہ نبی کریم ﷺ کو دوبارہ معلوم کرنا پڑتا تھا۔اور اسی طرح صحابہ کرام بھی یہ سوچنے لگے تھے کہ ہمارا ایمان تو گیاہماری تو زندگی ہی بیکار ہوگئی وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال یہ سب باتیں محبت والوں کی ہیں اور جس کو جس سے محبت ہوجاتی ہے وہ اسی طرح سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ یہاں میں عرض کردوں کہ ’’خلیل‘‘ اور’’ حبیب ‘‘ میں فرق ہے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے علاوہ دیگر انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو ’’خلیل‘‘ کہہ کر خطاب کیا ۔جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل کہہ کر خطاب فرمایا۔اور سرور کائنات ﷺ کو حبیب کہہ کر خظاب فرمایا،لفظ ’’حبیب ‘‘میں’’ خلیل‘‘ کے مقابلہ زیادہ محبت جھلکتی ہے۔اس کا ثبوت یہ کہ جس کو کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اس کو نام لیکر نہیں پکارتا جیسا کہ ایک بیوی اپنے شوہر کو’’ عبداللہ کے ابا‘‘یا شوہر اپنی بیوی کو’’ عبداللہ کی اماں‘‘ وغیرہ نام سے پکارتا ہے ۔یہ محبت کا نرالا انداز ہوتا ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو نام لیکر پکارا لیکن اپنے ’’حبیب‘‘ ﷺ کو نام لیکر نہیں پکارا بلکہ یوں کہا’’یاایھا المدثر‘‘’’یاایھا المزمل‘‘’’یایھاالنبی‘‘ ’’یاایھاالرسول‘‘ کبھی ’’یٰسین ‘‘وغیرہ کہہ کر خطاب فرمایااور ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسم کھائی ،فرمایا:
لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون
تیری جان کی قسم وہ کافر اپنے نشے میں اندھے ہورہے ہیں
جمہور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حضور ﷺ کی حیات طیبہ کی قسم ہے۔چنانچہ ’’ محب بمحبوب سوگند می خورند ومی گوید ’’بسر تو وحیات تو‘‘
الغرض محبت خود آداب محبت سکھا دیتی ہے یہ کسی سے سیکھا نہیں جاتا ۔جتنا جس سے جتنی قربت اور محبت ہوگی وہ اتنا ہی مؤدب اور با اخلاق ہوگا۔
میں نے اوپر عرض کیا تھا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کائنات کا معلم بنا کراور مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایاتھا،اور یہی اس امت کی خاصیت ہے جو بھی سچا امتی ہوگا وہ اخلاقیات کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے گا۔بڑوں کا احرام کرنے والا ہوگا اور چھوٹوں پر شفقت کرنے والا ہوگا۔اسی وجہ اس امت کو تمام امتوں کےسردار کے خطاب سے نوازہ گیا۔اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو معمار قوم کہا جاتا ہے اور یہ مقام بغیر مہذب ہوئے یا بغیر مؤدب ہوئے حاصل نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے
’’باادب با نصیب ،بے ادب بے نصیب
’’یاد رہے ادب سے قومیں بنتی ہیں اور بے ادبی سے قومیں فنا ہوتی ہیں‘‘
اس بات کو سمجھنےکے لیے ، چاہئے کہ پوری تاریخ عالم کا مطالعہ کرلیا جائے کہ اس دنیا نے کتنے پلٹے کھائے ،اس دنیا میں جب بھی تباہی آئی جب جب انسانیت کو تباہ کیا گیا یہ تباہی آئی اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے نہیں آئی ،بلکہ جب بھی اللہ کے خاص بندے (انبیاء ،رسل علیہم السلام۔صلحاء اتقیاء اولیاءعلماء) کی بے ادبی کی گئی زمین پر تباہی آئی ۔اس لیے یاد رہے کہ یہ پاکیزہ نفوس اللہ کی رحمت کا باعث ہوتے ہیں ان کے لیے دنیا کی ہر شئی دعاء کرتی ہے،اور آج دنیا میں تباہی اسی وجہ سے آرہی ہے کہ اپنے بڑوں کو غلط ناموں سے پکارا جارہا ہے ان کی بے ادبی کی جارہی ہے۔ہمارے اکابر نے چاہے وہ کسی بھی مسلک سے جڑے ہوں کبھی بھی اپنے بڑوں کی شان میں گستاخی نہیں کی ،گستاخ بن رہے ہیں تو آج کے یہ چند ٹکوں کے ڈگری یافتہ حضرات جو غیر اسلامی ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جن کا پہلا سبق ہی خیالی آزادی کا ہوتا ہے استاذ کو صرف نوکر سمجھا جاتا ہے،یہی اثر لیکر جب یہ مسلمانوں میں آتا ہے تو وہی آزاد روش یہاں بھی اپنا تا ہے اور سب سے پہلا حملہ اپنے بڑوں پر ہی کرتا ہے ،جس کو آج کی تہذیب میں کہا جاتا ہے’’لب آزاد ہیں‘‘’’قلم آزاد ہے‘‘ ’’خیالات آزاد ہیں‘‘ ’’انسانیت آزاد ہے‘‘ اس لیے کوئی کسی کو کچھ بھی کہہ لے صحیح ہے اور جتنا سخت کہے گا اتنا ہی زیادہ سراہا جائے گا اس پر ’’رسرچ‘‘ ہوتی ہے تازہ مثال’’ سلمان(شیطان)رشدی اور شیطان کی خالہ ’تسلیمہ نسرین‘‘کی ہےکہ انہوں نے بڑوں پر قلم اٹھایا تو ان پر دولت کی بارشیں کردی گئیں ان ہی کی نقل یہ ’’چھٹ بھیئے‘‘ کررہے ہیں اور ویسے ہی نہیں بلکہ اسکی آڑ میں ان کو موٹی موٹی رقومات حاصل ہوتی ہیں۔بات آگے نکل گئی میں عرض کررہاتھاکہ ہمارے اکابرچاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کے ہوں اپنے بڑوں کی اپنے اساتذہ کی اپنے اسلاف کی عزت کی ہے۔ اور اس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان کے نام کو رہتی دنیا تک قائم کردیا یہی وجہ کہ آج جب بھی کوئی ان کا نام لیتا ہے تو ان کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘رحمۃاللہ علیہ‘‘وغیرہ دعائیہ کلمات لگاتا ہے۔لیجئے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں۔
ایک مرتبہ امام ابوحنیفہؒ کسی مجلس میں وعظ فرمارہے تھے دوران وعظ آپ بار با اٹھ رہے تھے اور بیٹھ رہے تھے،مجلس کے اختتام کے بعد ایک معتقد نے نہایت ہی ادب کے ساتھ عرض کیا حضرت آج یہ کیا واقعہ تھا کہ آنجناب دوران وعظ باربار اٹھ رہے تھے ۔امام صاحبؒ نے فرمایامیرے استاذ محترم کا کمسن بیٹا کھیلتے ہوئے بار بار میرے سامنے آجاتا تھا ،استاذ کے بیٹے کے احترام میں میں بار بار کھڑا ہوجاتا تھا۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں ’’کاش میں ایک معلم ہوتا گو معلم بادشاہ تو نہیں ہوتالیکن بادشاہ گر ہوتا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ حکومت وقت نے ان کا ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازنا چاہا تو انہوں نے قبول کرنے سے منع فرمادیا اور کہا جب تک میرے استاذ ’’مولوی میر حسن صاحب‘‘کو نہیں نوازا جائے گا میں کوئی خطاب قبول نہیں کروں گاچنانچہ ان سے کہا گیا آپ کے استاذ محترم نےتو کوئی کتاب تصنیف نہیں فرمائی ،علامہ اقبالؒ نے جوب دیا میں ان کا کھلا علمی سرمایا اور کتاب ہوں،اس کے بعد مولوی میر حسن صاحب کو ’’شمس العلماء ‘‘کے خطاب سے نوازا گیااور علامہ اقبالؒ کو ’’سر‘‘ کے خطاب سے۔
باادب بانصیب بے ادب بےنصیب
ادب محبت کے زینوں میں سے پہلا زینہ ہے
شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ اپنے شیخ سید احمد شہید رحمہ اللہ کی معیت میں حج سے واپس آئے تو لکھنؤ میںان کو اطلاع ملی کہ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ انتقال فرما گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر سید احمد شہید رحمہ اللہ سخت بےقرار ہوئے ، اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کو اپنا ذاتی گھوڑا دیااور کہا: فوراً دہلی جاؤ اور معلوم کرکے آؤ کہ کیا یہ خبر صحیح ہےکہ میرے شیخ رحمہ اللہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تمام راستہ گھوڑے کی باگیں تھامے ہوئے پیدل چلتے رہے، لیکن گھوڑے کی اس زین پر بیٹھنے کی ہمت نہ ہوئی جس پر ان کے شیخ رحمہ اللہ بیٹھتے تھے۔اور پیدل ہی دہلی پہنچ گئے
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوبات میں لکھا ہے، کہ ایک مرتبہ خواجہ باقی باللہ رحمہ اللہ کے صاحبزادوں کو خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘ایں فقیر از سر تا پا غرق احسان ہائے والد شما است’’
‘‘یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والد کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے۔’’
ایک دوسرے خط میں خواجہ باقی باللہ رحمہ اللہ کے صاحبزادوں کو لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
ترجمہ: ‘‘آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر آپ کے آستانے کے خادموں کی عمر بھر خدمت کرتا رہوں تو پھر بھی آپ کا حق ادا تو نہ ہوسکے گا۔’’
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک ایک حدیث کے لیے میلوں سفر کر کے جب صاحب حدیث کے دروازہ پر پہنچتا تو معلوم ہو تا کہ وہ مشغول ہیں یا آرام فرما رہے ہیں تو میں ان کے آستانے پر سررکھ کر لیٹ جاتا، دھوپ اور ریت میرے منہ کو کالا کردیتی، جب وہ خود باہر آتے معلوم کرتے کہ کس وقت آئے ہو؟ تو میں کہتا کہ اتنا وقت گزر چکا ہے تو خفا ہوتے کہ تم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہو، خود کیوں آئے، ہمیں بلا لیتے ؟ تو میں کہتا کہ نہیں، میں طالب علم ہوں، میرا ہی آنا مناسب ہے
مولانا عبد الواحد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک طویل عرصہ کے بعد میں شہر کے اند ر کہیں سے گزر رہاتھا، اچانک میری نگاہوں کے آگے ایک بوڑھا شخص آرہا ہے، جس نے اپنے گلے میں بیلٹ کے ذریعہ ایک چو کور لکڑی کا ڈبہ لٹکا رکھا ہے، اس میں پان سگریٹ وغیرہ رکھا ہوا ہے اور گلیوں سڑکوں میں اس طرح گھومتا پھرتا پان ، بیڑی سگریٹ فروخت کر رہا ہے ۔ میں نے جب اس کو غورسے دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ تو وہی میرا درسی ساتھی ہے ، جس نے ”ہدایہ شریف“ اور استاذ کی بیک وقت بے حرمتی کی تھی ، شکل بگڑی ہوئی، چہرے پر داڑھی ندارد۔ میں نے اسے روکا اور اس کا نام لیا تووہ جھجکا اور کچھ دیر کے لیے رکا ، مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا تو میں نے اپنا نام بتا دیا اور وہ پہچان گیا، پھر میں نے اس کی حالت کے بارے میں پوچھا اور اس کو کتاب واستاذ کی بے حرمتی والا واقعہ بھی یاد دلایا تو اس نے گردن نیچی کر لی اور افسوس کرتے ہو ئے کہنے لگا” آج جو میری حالت ناگفتہ بہ نظر آرہی ہے ، یہ سب اسی واقعہ کی وجہ سے تو ہے“ ۔ پھروہ بھی آگے چلتا بنا اور میں اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔
حضرت ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا، وہ ایک شخص کے آگے آگے چل رہا ہے ،یعنی آپﷺنے اس آگے چلنے والے سے پو چھا :یہ تمہارے کیا لگتے ہیں ؟اس نے کہا : یہ میرے والد ہیں،اس پر آپﷺ نے فرمایا:اس کے آگے مت چلو ،اور جب تک وہ نہ بیٹھ جائے تم مت بیٹھو، اور اس کا نام لے کر مت پکا رو ،
(بخاری فی الادب المفرد)و(مصنف عبد الرزاق)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ رئیس المفسرین کیسے بنے۔ آپ نے فرمایا کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کا جوڑا مبارک سنبھال کر رکھتا تھا اور ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لیےتشریف لے گئے۔ تو میں نے ایک لوٹا بھر کر رکھ دیا۔ جب آپ ﷺ قضائے حاجت سے فارغ ہوکر تشریف لائے توفرمایا یہ لوٹا کس بھرکر رکھا ؟ (من وضع الوضوئ) میں نے عرض کیا (انی وضعت الوضوئ) میں نےکہا یا رسول اللہ(ﷺ) یہ میں نے بھر کر رکھا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ”اللّٰہم فقہہ فی الدین“ میرے مولیٰ عبداللہ کو دین میں سمجھ عطا فرما۔
خلاصہ کلام یہ کہ کوئی بھی انسان اس نے جب تک کوئی مقام نہیں پایا جب تک کہ اس نے بڑوں کا اپنے اساتذہ کا احترام نہ کیا ہو ، ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ ان کے استاذ کے معاملات کیا ہیں دین دار ہیں یا بے دین مسلمان ہیں یا غیر مسلم ۔ہمارے اکابر کی ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ اگر کوئی علم کی بات کسی ادنیٰ درجہ کے انسان سے بھی ملی تو انہوں نے تا عمر اس کا احترام استاذ ہی کی طرح کیا ،جس کا ذکر بعض طعن تشنیع والے حضرات بہت ہی تذلیل اور تضحیک آمیزانداز میں بیان کرتے ہیں ،اس میں ان کی کوئی خطا نہیں کیوںکہ ان کی تربیت ہی غلط ماحول میں ہوئی ،جیسی بصیرت ہوگی ویسا ہی نظر آئے گا ، ہیرے کی قدر تو جوہری ہی جانتا ہےہمہ شما کے نزدیک تو وہ مٹی کا ڈھیلا ہوتا ہے۔ کچھ فطرتیں ٹیڑھی ہوتی ہیں وہ جہاں بھی جاتی ہیں ان کا اثر محسوس کیا جاتا ہے۔
ہمارے اکابر اسلام چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کے ہوں ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے ہم کون ہوتے ہیں ان کا حساب کتاب لینے والے یا ان کا محاسبہ کرنے والے ہمیں اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیےنہ کے دوسروں کے اعمال کی۔ یا د رہے جو اس دنیا سے چلا گیا وہ ہم سے اچھی جگہ چلا گیااگر اس کے اعمال اچھے ہوں گے تو جنت کی سیر کررہا ہوگا برے کئے ہوں گے تو اس کا معاملہ بھی اللہ کے ہاتھ میں بہرحال جو دنیا سے چلا گیا اس کے اعمال بند ہو گئے ،جو زندہ ہیں ان کے اعمال کا اندراج چل رہا ہے۔ مردوں پر تبصرہ کرنا یا ان کے بارے میں غلط بیانی کرنا یہ غیبت میں ہی شمار ہوگا۔اور یہ بھی یا د رہے ہمارے تمام اسلاف اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تھے ان کی توہین کرنا اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔اور یہ حدیث مبارکہ سامنے رہنی چاہئے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
"إن الله قال: من عادى لي ولياً فقد آذنته بالحرب. وما تقرب إلى عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه. وما يزال عبدي يتقرب إليَّ بالنوافل حتى أحبه. فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها. ولئن سألني لأعطينَّه، ولئن استعاذني لأعيذنه. وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن قبض نفس المؤمن: يكره الموت، وأكره مساءته
( صحيح البخاري : 6502 ، الرقاق )
ترجمہ : حضر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی و دوست سے دشمنی کی ، میرااس کے ساتھ اعلان جنگ ہے ، اور میں نے جو چیزیں بندے پر فرض کی ہیں ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں ہے جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے ، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ، اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو (اس کے نتیجے میں) میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں ، اور اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں ، اور کسی چیز کے کرنے میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد اس مومن کی روح قبض کرنے پر ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے ، مجھے اسے غمگین کرنا نا پسند ہے ۔
اللہ تعالیٰ کو تقویٰ والی زندگی زیادہ پسند ہے،اور تقویٰ میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی دل آزاری نہ ہو کسی پر تہمت نہ ہو ، وغیرہ وغیرہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والی زندگی عطا فرمائے ،اور اپنے اکابر کی علماء کی اور اسلاف کی عزت اور قدر دانی کرنے والا فرمائے۔
اٰمین یا رب العالمین
فقط والسلام
عابدالرحمٰن بجنوری
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔