Tuesday 29 January 2013

20:51

حفاظ اور مفسرین کا تقابلی جائزہ


از: مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری

اشرفی امتی حملۃ القرآن

میری امت کے بڑے لوگ حافظ قرآن ہیں

نزول قرآن پاک سے پہلے جتنی بھی آسمانی کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے ،عدم تحفظ کی وجہ سے ان میں تحریف کردی گئیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منسوخ کردیا اور ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ۔اور قیا مت تک کے لیے اس کی حفاظت کا انتظام بھی فرمادیا ۔یہ قرآن پاک کا ہی اعزا ز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ہر طرح کی تحریف سے محفوظ کردیا ،یہ اللہ تعالیٰ کا ایک زندہ جاوید قیامت تک باقی رہنے والا عظیم الشا ن معجزہ ہے،اور اپنے قول :
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون
ہم نے خود اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں،
کی پاسداری فرمائی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو مختلف طریقوں سے محفوظ فرمادیا ،مخطوطہ اور غیر مخطوطہ ۔مخطوطہ تو قرآن پاک کی موجودہ شکل ہے جو کتابی شکل میں موجود ہے ۔اور غیر مخطوطہ ،آج کے سائنسی دور میں کمپیوٹر ،چپ ،سی دی،ڈی وی ڈی،وغیرہ کے ذریعہ قرآن پاک کو محفوظ فرمادیا ہے۔ان سب کے علاوہ بالفرض والمحال اگر ساری دینا سے مذکورہ چیزوں کو ختم کردیا جائے تو قرآن پھر بھی محفوظ رہے گا اور یہ محفوظ ترین ذریعہ ہے قلب انسانی ،اس انسانی قلب میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے قرآن پاک کو محفوظ فرمادیا ہے ۔جن قلوب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو محفوظ فرمایا ہے ،ان کو حفاظ کرام کے خطاب سے نوازہ گیا ہے
عہد رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم میں نبی کریم 
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ہم نے خود اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، کی پاسداری فرمائی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو مختلف طریقوں سے محفوظ فرمادیا ،مخطوطہ اور غیر مخطوطہ ۔مخطوطہ تو قرآن پاک کی موجودہ شکل ہے جو کتابی شکل میں موجود ہے ۔اور غیر مخطوطہ ،آج کے سائنسی دور میں کمپیوٹر ،چپ ،سی دی،ڈی وی ڈی،وغیرہ کے ذریعہ قرآن پاک کو محفوظ فرمادیا ہے۔ان سب کے علاوہ بالفرض والمحال اگر ساری دینا سے مذکورہ چیزوں کو ختم کردیا جائے تو قرآن پھر بھی محفوظ رہے گا اور یہ محفوظ ترین ذریعہ ہے قلب انسانی ،اس انسانی قلب میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے قرآن پاک کو محفوظ فرمادیا ہے ۔جن قلوب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو محفوظ فرمایا ہے ،ان کو حفاظ کرام کے خطاب سے نوازہ گیا ہے عہد رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہزاروں کی تعداد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حافظ قرآن ہوا کرتےتھے۔ ان ہی کی بدولت آج یہ قرآن پاک ہمارےآنکھوں کی ٹھنڈک قلب کا سکون اورایمان کا طاقت دینے کا ایک مضبوط ذریعہ بنا ہواہے ۔
خدام قرآن کی دو جماعتیں ہیں دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے دونوں نے اپنے اپنے انداز میں قرآن پاک کی خدمت کی ہے۔ان دونوں جماعتوں میں سے ایک کو’’ حفاظ کرام کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مفسرین عظام کہا جاتا ہے ۔
اب ان میں سے افضل کون ہے اس میں اختلاف ہے کچھ کہتے ہیں کہ خالی رٹنے رٹانے سے کوئی فائدہ نہیں اور ان کی تعبیر ایک نابینا آدمی سے کرتے ہیں ، کہ جس طرح ایک نابینا آدمی کو اپنے گردو پیش کی خبر نہیں ہوتی بس چلا جاتا ہے ،اور کہیں بھی گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
میرے نزدیک اس طرح کا خیال رکھنے والے افراد دین سے نا بلد اورمتعصب ذہن والے ہوتے ہیں ،بھلا کوئی ان سے معلوم کرے ۔ہر ملک کا ایک قانون ہوتا ہے ،لیکن اس کے ماہرین کچھ ہی افراد ہوتے ہیں ۔حتیٰ کہ ملک کا وزیر اعظم بھی قانون سے پوری طرح واقف نہیں ہوتا ،اس کو بھی ماہرین قانون دانوں کی ضرورت ہوتی ہے ،لہٰذا ایسے لوگوں کے نزدیک تو وزیر اعظم بھی نہ اہل ہونا چاہئے ،اور اس سے ملک کی باگ ڈور لے لینی چاہئے ۔
قرآن پاک کے دو حکم ہیں ایک قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور دوسرا حکم ہے اقراء جس کو علم قرآن کہا جاتا ہے ،حفاظ کرام کا تعلق تلاوت قرآن سے ہے اگر وہ اس کے معانی اور مطلب بھی جانتا ہے تو یہ اور بھی عمدہ ہے ۔جب کہ علم قرآن کا تعلق علماء کرام اور مفسرین عظام سے ہے ۔
ان میں سے اول الذکر یعنی حفاظ کرام کی وجہ سے قرآن پاک کے بارے میں کوئی اختلا ف یا تردد رونما نہیں ہوا ،اور نہ ہی کوئی ان کی وجہ سے گمراہ ہوا ۔آخرالذکر یعنی علماء کرام اور مفسرین عظام میں سے بعض حضرات کی غلط تشریحات توجیہات کی وجہ سے کافی اختلافات رونما ہوئے ،ان کو علماء سوء یا مفسرین سوء کہاجاتا ہے ۔جن کی وجہ سے امت مسلمہ کئی فرقوں میں بٹ گئی ،اسلام اور مسلمانوں کا وقار مجروح ہوا اور انہوں نے ہی قرآن پاک میں تخریب کاری(غلط بیانی جس کو تفسیر بالرائے بھی کہہ سکتے ہیں)کی اور مفسدون فی الارض کے مکلف ہوئے۔
میرے نزدیک اگر یہ حفاظ کرام نہ ہوتے تو ان علماء سوء اور دشمنان اسلام نے قرآن پاک میں تحریف کردی ہوتی ،اللہ بھلا کرے ان غریب حفاظ کرام کا ۔ میرے نزدیک اس ایک خوبی کی وجہ سے ان کا سینہ قرآن پاک کے نور سے منور ہے ۔اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔ ان کی بڑائی اور عظمت کے بارے متعدد احادیث مبارکہ ہیں جن سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔
میں نے اپنے والد محترم حضرت مفتی عزیزالرحمٰن نور اللہ مرقدہ سے عرض کیا ’’ ابا جی نورانی قاعدہ پڑھاتے ہوئے مجھے کئی سال ہوگئے میں نے جو کچھ پڑھا تھا سب بھول گیا ہوں ‘‘ فرمایا میرے نزدیک قاعدہ بغدای پڑھانا بخاری شریف پڑھانے سے زیادہ افضل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
خدام قرآن کی دو جماعتیں ہیں دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے دونوں نے اپنے اپنے انداز میں قرآن پاک کی خدمت کی ہے۔ان دونوں جماعتوں میں سے ایک کو’’ حفاظ کرام کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مفسرین عظام کہا جاتا ہے ۔ اب ان میں سے افضل کون ہے اس میں اختلاف ہے کچھ کہتے ہیں کہ خالی رٹنے رٹانے سے کوئی فائدہ نہیں اور ان کی تعبیر ایک نابینا آدمی سے کرتے ہیں ، کہ جس طرح ایک نابینا آدمی کو اپنے گردو پیش کی خبر نہیں ہوتی بس چلا جاتا ہے ،اور کہیں بھی گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس طرح کا خیال رکھنے والے افراد دین سے نا بلد اورمتعصب ذہن والے ہوتے ہیں ،بھلا کوئی ان سے معلوم کرے ۔ہر ملک کا ایک قانون ہوتا ہے ،لیکن اس کے ماہرین کچھ ہی افراد ہوتے ہیں ۔حتیٰ کہ ملک کا وزیر اعظم بھی قانون سے پوری طرح واقف نہیں ہوتا ،اس کو بھی ماہرین قانون دانوں کی ضرورت ہوتی ہے ،لہٰذا ایسے لوگوں کے نزدیک تو وزیر اعظم بھی نہ اہل ہونا چاہئے ،اور اس سے ملک کی باگ ڈور لے لینی چاہئے ۔ قرآن پاک کے دو حکم ہیں ایک قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور دوسرا حکم ہے اقراء جس کو علم قرآن کہا جاتا ہے ،حفاظ کرام کا تعلق تلاوت قرآن سے ہے اگر وہ اس کے معانی اور مطلب بھی جانتا ہے تو یہ اور بھی عمدہ ہے ۔جب کہ علم قرآن کا تعلق علماء کرام اور مفسرین عظام سے ہے ۔ ان میں سے اول الذکر یعنی حفاظ کرام کی وجہ سے قرآن پاک کے بارے میں کوئی اختلا ف یا تردد رونما نہیں ہوا ،اور نہ ہی کوئی ان کی وجہ سے گمراہ ہوا ۔آخرالذکر یعنی علماء کرام اور مفسرین عظام میں سے بعض حضرات کی غلط تشریحات توجیہات کی وجہ سے کافی اختلافات رونما ہوئے ،ان کو علماء سوء یا مفسرین سوء کہاجاتا ہے ۔جن کی وجہ سے امت مسلمہ کئی فرقوں میں بٹ گئی ،اسلام اور مسلمانوں کا وقار مجروح ہوا اور انہوں نے ہی قرآن پاک میں تخریب کاری(غلط بیانی جس کو تفسیر بالرائے بھی کہہ سکتے ہیں)کی اور مفسدون فی الارض کے مکلف ہوئے۔ میرے نزدیک اگر یہ حفاظ کرام نہ ہوتے تو ان علماء سوء اور دشمنان اسلام نے قرآن پاک میں تحریف کردی ہوتی ،اللہ بھلا کرے ان غریب حفاظ کرام کا ۔ میرے نزدیک اس ایک خوبی کی وجہ سے ان کا سینہ قرآن پاک کے نور سے منور ہے ۔اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔ ان کی بڑائی اور عظمت کے بارے متعدد احادیث مبارکہ ہیں جن سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔ میں نے اپنے والد محترم حضرت مفتی عزیزالرحمٰن نور اللہ مرقدہ سے عرض کیا ’’ ابا جی نورانی قاعدہ پڑھاتے ہوئے مجھے کئی سال ہوگئے میں نے جو کچھ پڑھا تھا سب بھول گیا ہوں ‘‘ فرمایا میرے نزدیک قاعدہ بغدای پڑھانا بخاری شریف پڑھانے سے زیادہ افضل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.