از: (مفتی) عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
ابن حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ
ابن حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ
سب دہشت گرد ہیں اور کوئی دہشت گرد نہیں!
اسلام یعنی سلامتی والا مذہب ،یعنی ایسا مذہب جس کو قبول کرنے کے بعد ہر شئی وجاندار اس سے محفوظ ومامون ہو جائے ۔ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے والے کو مومن یعنی ایمان والا کہا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں مذہب اسلام کے پیرو کار کو مومن کہا جاتا ہے ۔ مومن کا مطلب ہے’’امان والا ،امانت والا‘‘یعنی جو اسلام میں داخل ہو گیا وہ ’’امین ہوگیا‘‘’’امان دینے والا‘‘ ہوگیا اب ہر شئی وبشر اس سے مامون ہوگئی ،اس کے قرب میں رہنا گویا خود کو محفوظ کرلینا ہے ۔اب اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ۔اسی لئے اس کو سلامتی کا سبق یاد دلانے کے لئے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘کی تلقین کی گئی اور اس کو رائج کرنیکا حکم دیا گیا ،کہ لوگوں کو سلامتی اور رحمت کی دعا دو۔اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ بھی تم پر سلامتی ،رحمت ،اور برکت نازل فرمائیگا ۔قرآن پاک میں بھی یہی تاکید فرمائی گئی ہے کہ سلامتی کا راستہ اختیار کرو ،اور اسی کو رائج کرو۔اسلام تو جانوروں تک پر رحم کرنے کی ھدایت فرماتاہے۔
اور محبوب اِلٰہ حضرت محمد مصطفیٰ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کامل اور سچا مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے آپ کو مامون اور محفوظ سمجھیں ‘‘اورآپ ﷺ نے ارشادفرمایا’’تمام اولاد آدم اللہ کا کنبہ ہے ،اللہ کو سب مخلوق میں وہی محبوب ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک کرے‘‘(بیہقی)اور ایک جگہ ارشاد فرمایا’’کامل مومن اور کامل مسلمان وہ ہے کہ ہر چیز اس سے مامون ہو جائے‘‘اور ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلیٰ صورَتِہٖ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اٰدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا (گوکہ اللہ تعالیٰ صورت حقیقی سے پاک ہے)یہاں صورت سے مراد جسم نہیں بلکہ سیرت ہے ۔سیرت جتنی پاکیزہ ہوگی اتنی ہی صفت ِباری تعالیٰ سے متَّصِف ہوگی ۔اور بغیر حسن سیرت کے دخول جنت ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفت جھگڑا لو اور فسادی نہیں ۔تو اس پر ایمان لانے والے اور اس کی عبادت کرنے والے کیسے جھگڑا لو اور فسادی ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے،اسلام تو یہ سکھاتا ہے کہ دوران جنگ بھی عورتوں ،بوڑھوں ،ضعیفوں ،بچوں ،کو قتل نہ کیا جائے،اور اگر کوئی امان چاہے تو اس کو امان دو۔چنانچہ اگر مسلمان دہشت گرد ہوتا یا اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا تو آج پوری دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ،اور پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی اور اسلامی روایات وتعلیمات کا بول بالا ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے کبھی بھی اپنے نظریات کو تھوپا نہیں
اور نہ ہی کسی کو ماننے کے لئے مجبور کیا۔ذرا اسلام کے دامن امن میں آکر تو دیکھو؟۔
اسلام کی بنیاد ہی خدمت خلق پر ہے ،مسلمان خادم ہوتا ہے مخدوم نہیں ،اور یہ حقیقت ہے کہ جس سے اطاعت اور خدمت کرنی آگئی وہ کامیاب ہوگیا ۔اسلام سکھاتا ہے کہ جس نے مخلوق کی خدمت کی گویا اس نے خالق کی خدمت کی ۔اور جس نے مخلوق کو تکلیف یا اذیت دی اس نے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلیا۔اسلام کا مقصِدزمین پر حکمرانی کرنا نہیں بلکہ زمین پر امن رکھنا مقصود ہے ۔اسلام کی حکمرانی تو قلوب پر ہوتی ہے جو اس کے قریب آگیا وہ اسی کا ہوگیا ۔اسلام تو انسانی قلوب اور ارواح کی صفائی کا ایک فارمولاہے جس نے اس فارمولے پر عمل کیا وہ کامیاب ہوگیا ۔کیونکہ جب روح اور قلب پاکیزہ ہونگے تو خیالات اور اعمال بھی پاکیزہ ہونگے۔
آدمی کے اعمال اور افعال اس کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں اگر سوچ منفی ہے تو اوعمال بھی منفی سرزد ہونگے،اور اگر سوچ مثبت ہے تو اعمال بھی مُثبت ہونگے۔ ’’سوچ ابتدأًایک خیال ہوتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے یہ خیال فکر میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پھر یہ فکر ایک عمل بن جاتا ہے،اور پھر یہ عمل ایک تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جو سوچ ابتداء ہی میں تحریک کی شکل اختیار کرلیتی ہے وہ جلد ہی دم توڑ دیتی ہے۔‘‘
چنانچہ جب دشمنان اسلام کو اسلام کی پاکیزگی ،حقانیت اور مقبولیت کااندازہ ہو گیا اور ان کو اپنی حکمرانی اورعیاشی کو خطرہ لاحق ہونے لگا ،اور یقین ہوگیا کہ اب ہماری حکمرانی اور عیاشی ختم ہوا چاہتی ہے تو پھر ان انتہاپسند اور دہشت گرد حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل اور عیاشی کی حفاظت کے لئے مختلف بہانے بناکر جھوٹے خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے اور پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کرکے پہلے چند سربراہان مملکت کو اپنا ہم خیال بنایا اور ان کوجھوٹے سبز باغ دکھائے ،پھر ان سب باطل قوتوں نے اپنی رعایا کو بیوقوف بناکر ان کو بھی اپنا ہم خیال بنالیا ۔کہیں تہذب کا سہارا لیا تو کہیں مذہب کا سہارا لیا ،کہیں جمہوریت کا سہارا لیا تو کہیں امن عامہ کا۔ الغرض سب کا بیوقوف بناکر اپنا ہم خیال بنا لیا۔چنانچہ اپنے اور بیگانے سب اسلام کے خلاف کھڑے ہو گئے اور اپنی اس دہشت گردانہ تحریک کا نام ’’جنگ برائے انشداد دہشت گردی‘‘یا ’’جنگ برائے امن‘‘ رکھدیا اور اس کو اتنا اچھالا کہ سب اسلام کو اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسندکہنے لگے،اس طرح یہ چند عیاش اور مکار افراداپنی عیاشی ،عیاری اورمکاری کی پردہ پوشی میں کامیاب ہوگئے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد نہ محب وطن ہوتے ہیں اور نہ محافظ عوام اور نہ ہی مذہب پسند ۔کیونکہ کوئی بھی مذہب یا مَشرَب عیاری ،مکاری ،عریانیت،شراب نوشی،ذخیرہ اندوزی اور ظلم واستبداد کی تعلیم دیتا ہے اور نہ پسند کرتاہے۔یہ تو ان لوگوں کامذہب اور انسانیت نوازی کا لبادہ اوڑھ کر عیاشی ،مکاری اورعیاری کا دفاع کھلا کاروبارہے۔اور اسلام چونکہ ان سب چیزوں کی سخت مخالفت کرتاہے، اور مسلمان چونکہ اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرتے ہیں ،اور دوسرے مذاہب والے اس کی حقانیت اور پاکیزگی کو دیکھ کر اس کی طرف راغب ہورہے تھے اور مذہب اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ تو یہ شر پسند افراد ہاتھ دھوکر اسلام اور مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات کے پیچھے پڑ گئے۔ان کے خیال باطل کے مطابق کہ اگر اسلام زیر ہوگیا تو باقی سب خود ہی زیر ہوجائیں گے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر دہشت کے پیچھے ایک دہشت اور ہوتی ہے ان عیاش اور مکار حکمرانوں نے سوچا تھا کہ چند افراد اور چند ملکوں کوغصب کرلینے کے بعد مسلمان زیر ہوجائیں گے اور ہم جیسے ہی ہوجا ئیں گے ۔لیکن ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اسلام سرنگوں نہیں ہو تا بلکہ سرنگوں کرتاہے۔تو انہوں نے شور مچادیا کہ’’دیو آگئے،دیو آگئے‘‘دہشت گردآگئے، دہشت گرد آگئے‘‘۔یہ اسلام کی انسانیت نوازی اور اسکی دریا دلی ہی ہے کہ اتنا جانی اور مالی نقصان ہونے کے بعد بھی صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔اور خود کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔
جمہوریت اور شانتی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ عیاش اور مکار حکمران کیا یہ بتا سکتے ہیں ،کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے کہ کوئی کسی سے یہ کہے کہ تمہارا مذہب غلط ہے ، تمہارے نظریات غلط ہیں ،تمہارا حلیہ غلط ہے،تمہارا پہناوا غلط ہے ،تمہاری مساجد غلط،تمہارے تعلیمی ادارے غلط،تم اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہو ،انہیں نقاب کاپابند کرتے ہو ،انہیں کلبوں میں جانیسے روکتے ہو،وغیرہ وغیرہ۔اور کیا یہ ظلم اور دہشت گردی نہیں ہے کہ مسلمانوں سے یہ کہا جائے کہ قرآن پاک میں تحریف کرو،قرآن پاک کی تعلیم بند کرو،اذان دینا بند کرو،داڑھی رکھنا بند کرو ،اپنا حلیہ تبدیل کرو،بے لباسی اور عریانیت کو فروغ دو،اپنی عورتوں کو ہماری تہذیب کے ہم آہنگ (عریاں یانیم عریاں)کرو،اور ہماری طرح بھائی بہن کے پاکیزہ رشتہ کو داغ دار کرو۔ان مکاروںکی انسا نیت نوازی دیکھئے کہ خود ہی پلاننگ کرتے ہیں اور خود ہی حملے کرتے ہیں یا کرواتے ہیں ،اور خودہی ٹاور گراتے اور بدنام کرتے ہیں مسلمانوں کو۔
اور اس سے بڑھ کر اور کیا دہشت گردی ہوگی کہ جو افراد ’’ہم جنس پرستی‘‘(Homo Sexuality)جیسی لغو اور
بے حیائی اور بیہودہ حرکت کو پسند کرتے ہوں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوں ،اور انتہا یہ کہ اس کو انتخابی اِشو(Issue)بنا کر الیکشن بھی جیتے جاتے ہوں ۔اس کا نام ان بدمعاشوں نے رکھا ہے’’ شخصی آزادی‘‘اور جو اپنے تن بدن کو ڈھانپیں ان کو کہا جائے ’’دہشت گرد‘‘واہ رے واہ انصاف کے متوالو’’شخصی آزادی‘‘اور ’’جمہوریت ‘‘کا نعرہ لگانے والو!میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کون ہیں ہمیں یہ سمجھانے والے کہ فلاں عمل کرو اور فلاں عمل نہ کرو۔واہ رے عیسائیت ،اور صیہونیت کی تبلیغ کرنے والو اور ان کے ہم نوائوںہمیں تعلیم نہ دو ہمیں یہ نہ سکھائو کہ تمہارا اسلامی دستور غلط ہے تمہارا مذہب غلط ہے اور نعوذباللہ تمہارے پیغمبر غلط ہیں ارے کوڑھ مغزوں ہمارا مذہب وہی ہے جو ہمارے تمام انبیاء کا مذہب تھاہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کوئی نیا مذہب یا دین لیکر نہیں آئے بلکہ انہوں نے تو وہی تعلیم اور دین سکھا یا جو پہلوں نے دی تھی۔ہمارے بنی ﷺنے اور نہ کسی ادنا سے ادنا پیروکارنے کبھی بھول سے بھی کسی نبی علیہ السلام کی بے ادبی کی اورنہ کرسکتا ہے ۔کیونکہ ایک مسلمان اپنے رسول علیہ السلام کی رسالت کے اقرار کے ساتھ ساتھ تمام انبیاء اور رسل کی نبوت ان کی رسالت اور ان کی حقانیت کا اقرار کرتاہے ۔میری ایسے تمام مفسدین سے درخواست ہے کہ پہلے تم اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات پر عمل کرو ۔اگر تمہارا قول فعل صحیح ہوگا تو لوگ خود ہی تمہاری طرف راغب ہوں گے ۔اور ایسا نہ تم نے کبھی کیا اور نہ اب کرسکتے ہو! کیوں کہ اگر تم اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے تو کسی دوسرے نبی علیہ السلام کی بعثت کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔کیونکہ تم نے اپنی رسول علیہ السلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا اور آسمانی کتابوں میں ردوبدل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمہارے اندر سے کشش ،جاذبیت اور حقا نیت ختم ہوگئی ۔اور اسلام چونکہ ایک سچا اور بااصول مذہب ہے اور اس کی تعلیمات آج بھی جوں کی توں باقی ہیں اور محفوظ ہیں اس لئے اس میں آج بھی وہی کشش اور جاذبیت ہے جو اب سے چودہ سو سال پہلے تھی۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو پسند کر رہے ہیں اور اس میں داخل ہو رہے ہیں اور تاقیامت اس میں داخل ہوتے رہیں گے، اور اپنی تشنگی دورکرتے رہیں گے۔کہاں تک لوگوں کو ’’دہشت گرد‘‘کہو گے اور کب تک کہو گے؟ اگر مذہب پر عمل پیرا ہونے کا نام ہی دہشت گردی ہے تو پھرہر انسان دہشت گرد ہے ،ہر مذہب دہشت گرد ہے ،کیونکہ ہر انسان اپنے مذہب کو اور اپنے عقائد کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے کے مذہب اور عقائد کوغلط سمجھتا ہے ،اور اگر مذہبی ہونا ہی ’’دہشت گردی‘‘ ہے تو کونساملک اور کونسا مذہب ایسا ہے کہ جس کے پیروکاروں نے اپنے مذہب کی بقا ء اور تحفظ کے لئے جنگ نہ کی ہو،میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ صرف اورصرف مذہب اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جس نے کبھی بھی مذہب کے نام پر جنگ نہیں کی اور نہ ہی اسلام جنگ و قتال میں یقین رکھتاہے ۔اسلام تو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ سوچو اور سمجھو کہ حقیقت کیا ہے؟ آپسی اختلافات اور تفریق بازی کو ختم کرو کوئی ادنا اعلیٰ نہیں یہ پوری کائنات ایک معبود حقیقی کی ملکیت ہے ۔اس لئے سب ایک ہوکر ایک معبود حقیقی کی عبادت کرو۔
ابھی اس دنیا سے انسانیت اور انسانیت نوازی ختم نہیں ہوئی ہے ۔انصاف پسند لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے ،اور پس پردہ کیا ہے ،اور حسب معلومات لوگوں کو اس سے آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں اور ان مکاروں کی مکاریوں میں نہیں پھنستے ،اگرچہ ایسے افراد کم ہیں ،اور اکثریت شرارتیوں کی ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افراد سے ہی جماعت بنتی ہے اور پھر جماعت سے تنظیم جنم لیتی ہے اور پھر یہ تنظیم تحریک کی شکل میں کام کرتی ہے ۔میری درخواست ہے کہ ایسے افراد کی بلاتفریق مذہب اور ملت حوصلہ افزائی کی جائے اور ان سماج دشمن عناصر کو بے نقاب کیا جائے ۔مخلوق خدا کی مدد اور ان کی حفاظت کی جائے میری اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور تمام عالم میں امن وامان قائم فرمائے اٰمین.
مفتی عابدالرحمن بجنوری
محلہ مردہگان بجنور
اور محبوب اِلٰہ حضرت محمد مصطفیٰ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کامل اور سچا مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے آپ کو مامون اور محفوظ سمجھیں ‘‘اورآپ ﷺ نے ارشادفرمایا’’تمام اولاد آدم اللہ کا کنبہ ہے ،اللہ کو سب مخلوق میں وہی محبوب ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک کرے‘‘(بیہقی)اور ایک جگہ ارشاد فرمایا’’کامل مومن اور کامل مسلمان وہ ہے کہ ہر چیز اس سے مامون ہو جائے‘‘اور ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلیٰ صورَتِہٖ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اٰدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا (گوکہ اللہ تعالیٰ صورت حقیقی سے پاک ہے)یہاں صورت سے مراد جسم نہیں بلکہ سیرت ہے ۔سیرت جتنی پاکیزہ ہوگی اتنی ہی صفت ِباری تعالیٰ سے متَّصِف ہوگی ۔اور بغیر حسن سیرت کے دخول جنت ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفت جھگڑا لو اور فسادی نہیں ۔تو اس پر ایمان لانے والے اور اس کی عبادت کرنے والے کیسے جھگڑا لو اور فسادی ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے،اسلام تو یہ سکھاتا ہے کہ دوران جنگ بھی عورتوں ،بوڑھوں ،ضعیفوں ،بچوں ،کو قتل نہ کیا جائے،اور اگر کوئی امان چاہے تو اس کو امان دو۔چنانچہ اگر مسلمان دہشت گرد ہوتا یا اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا تو آج پوری دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ،اور پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی اور اسلامی روایات وتعلیمات کا بول بالا ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے کبھی بھی اپنے نظریات کو تھوپا نہیں
اور نہ ہی کسی کو ماننے کے لئے مجبور کیا۔ذرا اسلام کے دامن امن میں آکر تو دیکھو؟۔
اسلام کی بنیاد ہی خدمت خلق پر ہے ،مسلمان خادم ہوتا ہے مخدوم نہیں ،اور یہ حقیقت ہے کہ جس سے اطاعت اور خدمت کرنی آگئی وہ کامیاب ہوگیا ۔اسلام سکھاتا ہے کہ جس نے مخلوق کی خدمت کی گویا اس نے خالق کی خدمت کی ۔اور جس نے مخلوق کو تکلیف یا اذیت دی اس نے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلیا۔اسلام کا مقصِدزمین پر حکمرانی کرنا نہیں بلکہ زمین پر امن رکھنا مقصود ہے ۔اسلام کی حکمرانی تو قلوب پر ہوتی ہے جو اس کے قریب آگیا وہ اسی کا ہوگیا ۔اسلام تو انسانی قلوب اور ارواح کی صفائی کا ایک فارمولاہے جس نے اس فارمولے پر عمل کیا وہ کامیاب ہوگیا ۔کیونکہ جب روح اور قلب پاکیزہ ہونگے تو خیالات اور اعمال بھی پاکیزہ ہونگے۔
آدمی کے اعمال اور افعال اس کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں اگر سوچ منفی ہے تو اوعمال بھی منفی سرزد ہونگے،اور اگر سوچ مثبت ہے تو اعمال بھی مُثبت ہونگے۔ ’’سوچ ابتدأًایک خیال ہوتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے یہ خیال فکر میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پھر یہ فکر ایک عمل بن جاتا ہے،اور پھر یہ عمل ایک تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جو سوچ ابتداء ہی میں تحریک کی شکل اختیار کرلیتی ہے وہ جلد ہی دم توڑ دیتی ہے۔‘‘
چنانچہ جب دشمنان اسلام کو اسلام کی پاکیزگی ،حقانیت اور مقبولیت کااندازہ ہو گیا اور ان کو اپنی حکمرانی اورعیاشی کو خطرہ لاحق ہونے لگا ،اور یقین ہوگیا کہ اب ہماری حکمرانی اور عیاشی ختم ہوا چاہتی ہے تو پھر ان انتہاپسند اور دہشت گرد حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل اور عیاشی کی حفاظت کے لئے مختلف بہانے بناکر جھوٹے خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے اور پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کرکے پہلے چند سربراہان مملکت کو اپنا ہم خیال بنایا اور ان کوجھوٹے سبز باغ دکھائے ،پھر ان سب باطل قوتوں نے اپنی رعایا کو بیوقوف بناکر ان کو بھی اپنا ہم خیال بنالیا ۔کہیں تہذب کا سہارا لیا تو کہیں مذہب کا سہارا لیا ،کہیں جمہوریت کا سہارا لیا تو کہیں امن عامہ کا۔ الغرض سب کا بیوقوف بناکر اپنا ہم خیال بنا لیا۔چنانچہ اپنے اور بیگانے سب اسلام کے خلاف کھڑے ہو گئے اور اپنی اس دہشت گردانہ تحریک کا نام ’’جنگ برائے انشداد دہشت گردی‘‘یا ’’جنگ برائے امن‘‘ رکھدیا اور اس کو اتنا اچھالا کہ سب اسلام کو اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسندکہنے لگے،اس طرح یہ چند عیاش اور مکار افراداپنی عیاشی ،عیاری اورمکاری کی پردہ پوشی میں کامیاب ہوگئے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد نہ محب وطن ہوتے ہیں اور نہ محافظ عوام اور نہ ہی مذہب پسند ۔کیونکہ کوئی بھی مذہب یا مَشرَب عیاری ،مکاری ،عریانیت،شراب نوشی،ذخیرہ اندوزی اور ظلم واستبداد کی تعلیم دیتا ہے اور نہ پسند کرتاہے۔یہ تو ان لوگوں کامذہب اور انسانیت نوازی کا لبادہ اوڑھ کر عیاشی ،مکاری اورعیاری کا دفاع کھلا کاروبارہے۔اور اسلام چونکہ ان سب چیزوں کی سخت مخالفت کرتاہے، اور مسلمان چونکہ اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرتے ہیں ،اور دوسرے مذاہب والے اس کی حقانیت اور پاکیزگی کو دیکھ کر اس کی طرف راغب ہورہے تھے اور مذہب اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ تو یہ شر پسند افراد ہاتھ دھوکر اسلام اور مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات کے پیچھے پڑ گئے۔ان کے خیال باطل کے مطابق کہ اگر اسلام زیر ہوگیا تو باقی سب خود ہی زیر ہوجائیں گے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر دہشت کے پیچھے ایک دہشت اور ہوتی ہے ان عیاش اور مکار حکمرانوں نے سوچا تھا کہ چند افراد اور چند ملکوں کوغصب کرلینے کے بعد مسلمان زیر ہوجائیں گے اور ہم جیسے ہی ہوجا ئیں گے ۔لیکن ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اسلام سرنگوں نہیں ہو تا بلکہ سرنگوں کرتاہے۔تو انہوں نے شور مچادیا کہ’’دیو آگئے،دیو آگئے‘‘دہشت گردآگئے، دہشت گرد آگئے‘‘۔یہ اسلام کی انسانیت نوازی اور اسکی دریا دلی ہی ہے کہ اتنا جانی اور مالی نقصان ہونے کے بعد بھی صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔اور خود کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔
جمہوریت اور شانتی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ عیاش اور مکار حکمران کیا یہ بتا سکتے ہیں ،کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے کہ کوئی کسی سے یہ کہے کہ تمہارا مذہب غلط ہے ، تمہارے نظریات غلط ہیں ،تمہارا حلیہ غلط ہے،تمہارا پہناوا غلط ہے ،تمہاری مساجد غلط،تمہارے تعلیمی ادارے غلط،تم اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہو ،انہیں نقاب کاپابند کرتے ہو ،انہیں کلبوں میں جانیسے روکتے ہو،وغیرہ وغیرہ۔اور کیا یہ ظلم اور دہشت گردی نہیں ہے کہ مسلمانوں سے یہ کہا جائے کہ قرآن پاک میں تحریف کرو،قرآن پاک کی تعلیم بند کرو،اذان دینا بند کرو،داڑھی رکھنا بند کرو ،اپنا حلیہ تبدیل کرو،بے لباسی اور عریانیت کو فروغ دو،اپنی عورتوں کو ہماری تہذیب کے ہم آہنگ (عریاں یانیم عریاں)کرو،اور ہماری طرح بھائی بہن کے پاکیزہ رشتہ کو داغ دار کرو۔ان مکاروںکی انسا نیت نوازی دیکھئے کہ خود ہی پلاننگ کرتے ہیں اور خود ہی حملے کرتے ہیں یا کرواتے ہیں ،اور خودہی ٹاور گراتے اور بدنام کرتے ہیں مسلمانوں کو۔
اور اس سے بڑھ کر اور کیا دہشت گردی ہوگی کہ جو افراد ’’ہم جنس پرستی‘‘(Homo Sexuality)جیسی لغو اور
بے حیائی اور بیہودہ حرکت کو پسند کرتے ہوں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوں ،اور انتہا یہ کہ اس کو انتخابی اِشو(Issue)بنا کر الیکشن بھی جیتے جاتے ہوں ۔اس کا نام ان بدمعاشوں نے رکھا ہے’’ شخصی آزادی‘‘اور جو اپنے تن بدن کو ڈھانپیں ان کو کہا جائے ’’دہشت گرد‘‘واہ رے واہ انصاف کے متوالو’’شخصی آزادی‘‘اور ’’جمہوریت ‘‘کا نعرہ لگانے والو!میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کون ہیں ہمیں یہ سمجھانے والے کہ فلاں عمل کرو اور فلاں عمل نہ کرو۔واہ رے عیسائیت ،اور صیہونیت کی تبلیغ کرنے والو اور ان کے ہم نوائوںہمیں تعلیم نہ دو ہمیں یہ نہ سکھائو کہ تمہارا اسلامی دستور غلط ہے تمہارا مذہب غلط ہے اور نعوذباللہ تمہارے پیغمبر غلط ہیں ارے کوڑھ مغزوں ہمارا مذہب وہی ہے جو ہمارے تمام انبیاء کا مذہب تھاہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کوئی نیا مذہب یا دین لیکر نہیں آئے بلکہ انہوں نے تو وہی تعلیم اور دین سکھا یا جو پہلوں نے دی تھی۔ہمارے بنی ﷺنے اور نہ کسی ادنا سے ادنا پیروکارنے کبھی بھول سے بھی کسی نبی علیہ السلام کی بے ادبی کی اورنہ کرسکتا ہے ۔کیونکہ ایک مسلمان اپنے رسول علیہ السلام کی رسالت کے اقرار کے ساتھ ساتھ تمام انبیاء اور رسل کی نبوت ان کی رسالت اور ان کی حقانیت کا اقرار کرتاہے ۔میری ایسے تمام مفسدین سے درخواست ہے کہ پہلے تم اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات پر عمل کرو ۔اگر تمہارا قول فعل صحیح ہوگا تو لوگ خود ہی تمہاری طرف راغب ہوں گے ۔اور ایسا نہ تم نے کبھی کیا اور نہ اب کرسکتے ہو! کیوں کہ اگر تم اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے تو کسی دوسرے نبی علیہ السلام کی بعثت کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔کیونکہ تم نے اپنی رسول علیہ السلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا اور آسمانی کتابوں میں ردوبدل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمہارے اندر سے کشش ،جاذبیت اور حقا نیت ختم ہوگئی ۔اور اسلام چونکہ ایک سچا اور بااصول مذہب ہے اور اس کی تعلیمات آج بھی جوں کی توں باقی ہیں اور محفوظ ہیں اس لئے اس میں آج بھی وہی کشش اور جاذبیت ہے جو اب سے چودہ سو سال پہلے تھی۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو پسند کر رہے ہیں اور اس میں داخل ہو رہے ہیں اور تاقیامت اس میں داخل ہوتے رہیں گے، اور اپنی تشنگی دورکرتے رہیں گے۔کہاں تک لوگوں کو ’’دہشت گرد‘‘کہو گے اور کب تک کہو گے؟ اگر مذہب پر عمل پیرا ہونے کا نام ہی دہشت گردی ہے تو پھرہر انسان دہشت گرد ہے ،ہر مذہب دہشت گرد ہے ،کیونکہ ہر انسان اپنے مذہب کو اور اپنے عقائد کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے کے مذہب اور عقائد کوغلط سمجھتا ہے ،اور اگر مذہبی ہونا ہی ’’دہشت گردی‘‘ ہے تو کونساملک اور کونسا مذہب ایسا ہے کہ جس کے پیروکاروں نے اپنے مذہب کی بقا ء اور تحفظ کے لئے جنگ نہ کی ہو،میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ صرف اورصرف مذہب اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جس نے کبھی بھی مذہب کے نام پر جنگ نہیں کی اور نہ ہی اسلام جنگ و قتال میں یقین رکھتاہے ۔اسلام تو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ سوچو اور سمجھو کہ حقیقت کیا ہے؟ آپسی اختلافات اور تفریق بازی کو ختم کرو کوئی ادنا اعلیٰ نہیں یہ پوری کائنات ایک معبود حقیقی کی ملکیت ہے ۔اس لئے سب ایک ہوکر ایک معبود حقیقی کی عبادت کرو۔
ابھی اس دنیا سے انسانیت اور انسانیت نوازی ختم نہیں ہوئی ہے ۔انصاف پسند لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے ،اور پس پردہ کیا ہے ،اور حسب معلومات لوگوں کو اس سے آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں اور ان مکاروں کی مکاریوں میں نہیں پھنستے ،اگرچہ ایسے افراد کم ہیں ،اور اکثریت شرارتیوں کی ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افراد سے ہی جماعت بنتی ہے اور پھر جماعت سے تنظیم جنم لیتی ہے اور پھر یہ تنظیم تحریک کی شکل میں کام کرتی ہے ۔میری درخواست ہے کہ ایسے افراد کی بلاتفریق مذہب اور ملت حوصلہ افزائی کی جائے اور ان سماج دشمن عناصر کو بے نقاب کیا جائے ۔مخلوق خدا کی مدد اور ان کی حفاظت کی جائے میری اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور تمام عالم میں امن وامان قائم فرمائے اٰمین.
مفتی عابدالرحمن بجنوری
محلہ مردہگان بجنور
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔