بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شریعت طریقت معرفت کی حقیقت
از :مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
حامدا ومصلیا امابعد!
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ومن یتبع غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منہ }
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ اور کوئی دین چاہے ،تو اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔
بازار عشق وسُوقِ محبت کے جاں فروش۔۔۔ لپکیں کہ چل چلاؤہے دنیائے دون کا
سیکھیں طریق وصل ولقائے خدائے پاک۔۔۔ دل بیچ کے خرید لیں سودا جنون کا
سیکھیں طریق وصل ولقائے خدائے پاک۔۔۔ دل بیچ کے خرید لیں سودا جنون کا
’’انسان ‘‘ نسیان اور اُنس(محبت)بیک وقت دونوں سے متصف ہے ۔یعنی انسان میں
(بوجہ جہالت) نسیان بھی ہے اور بوجہ اُنسیت کے محبت بھی ہے ۔چنانچہ یہی
محبت اور انسیت ہے کہ نبینا حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت حضرت حواّ
علیہا الصلوٰۃ والسلام کی طرف مائل ہوئے ۔یہ تو تھا انیس مونس اور انسیت
والا معاملہ ۔اب دیکھئے انسان کا دوسرا پہلو یعنی نسیان والا معاملہ ۔اللہ
تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۱۱۵ۧ [٢٠:١١٥]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
باوجود عہدوپیمان کے حضرت آدم علیہ السلام نے بوجہ غلبہ نسیان (جس کو ہم چوک کہیں تو زیادہ مناسب رہیگا کیونکہ نبی کا معاملہ ہے) اور انسیت کے شجرہ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ[٢٠:١٢٣]
فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہوں گے)
اس پورے عمل میں اصل کارستانی تو ابلیس کی تھی لیکن ابلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام بوجہ نبوت اس کے چکر میں نہیں آئیں گے تو اس نے حضرت حوّا علیہا السلام کو بہکا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت اور محبت کے اپنی بیوی کے کہنے میں آگئے اور فرمان الٰہی سے چوک ہوگئی ،اور قیامت تک کے لیے انسان کو ایک امتحان گاہ میںلے آئے،اس ذرا سی چوک اور انسیت نے انسان کوکہاں سے کہاں پہونچا دیا۔
یہیں سے ایک بات اور مترشح ہوتی ہے کہ’’ بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ‘‘۔اور یہ بات بھی معلوم ہورہی ہے کہ ’’ بڑوں کی نافرمانی بھی نہیں کرنی چاہئےاور بڑوں کی باتوں میں اپنی عقل کو بھی دخیل نہیںکرناچاہیے‘‘یاد رہے بڑوں کی بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے،خیر کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس عمل کو کرنا چاہیے،جیسا کہ مثال گزر چکی یہ تو تھی عالم بالا کی مثال ۔
ایک ارضی مثال اور پیش کرتا ہوں :
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
باوجود عہدوپیمان کے حضرت آدم علیہ السلام نے بوجہ غلبہ نسیان (جس کو ہم چوک کہیں تو زیادہ مناسب رہیگا کیونکہ نبی کا معاملہ ہے) اور انسیت کے شجرہ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ[٢٠:١٢٣]
فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہوں گے)
اس پورے عمل میں اصل کارستانی تو ابلیس کی تھی لیکن ابلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام بوجہ نبوت اس کے چکر میں نہیں آئیں گے تو اس نے حضرت حوّا علیہا السلام کو بہکا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت اور محبت کے اپنی بیوی کے کہنے میں آگئے اور فرمان الٰہی سے چوک ہوگئی ،اور قیامت تک کے لیے انسان کو ایک امتحان گاہ میںلے آئے،اس ذرا سی چوک اور انسیت نے انسان کوکہاں سے کہاں پہونچا دیا۔
یہیں سے ایک بات اور مترشح ہوتی ہے کہ’’ بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ‘‘۔اور یہ بات بھی معلوم ہورہی ہے کہ ’’ بڑوں کی نافرمانی بھی نہیں کرنی چاہئےاور بڑوں کی باتوں میں اپنی عقل کو بھی دخیل نہیںکرناچاہیے‘‘یاد رہے بڑوں کی بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے،خیر کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس عمل کو کرنا چاہیے،جیسا کہ مثال گزر چکی یہ تو تھی عالم بالا کی مثال ۔
ایک ارضی مثال اور پیش کرتا ہوں :
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ قرآن پاک میں بڑی
تفصیل سے ہے اس پورے واقعہ کو تو میں بیان نہیں کروں گا کیوںکہ یہاں وہ
میرا موضوع نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش کا
احترام کرتے ہوئے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کروائی حضرت خضر علیہ
السلام نے حضرت موسیٰ علیہ کو تاکید فرمادی تھی کہ میرے ساتھ اگر رہنا ہے
تو مجھ سے کوئی سوال مت کرنا چاہے بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔ بہر حال
حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام
صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور
دونو ںمیں جدائی ہوگئی ۔تو عرض یہ کرنا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت خضر علیہ السلام کی باتوں پر باوجود عہدو پیمان کے اعتراض نہ کرتے تو
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیا کے عجائبات کی اور سیر ہوجاتی۔معلوم یہ ہوا
رہبر کی باتوںسے اعراض اور ان پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے جب کسی کو اپنا
امام استاذ ،پیر یا رہبر مان لیا تو من مانی چھوڑ دینی چاہیے( بشرطیکہ ان
کی باتیں شریعت سے متعارض نہ ہوں )اس سے اکتساب فیض رک جاتا ہے اور علم کی
برکت ختم ہوجاتی ہے ، اگرچہ علم توہوتا ہے مگر علم لدنی ختم ہوجاتا ہے علم
کی باریکیاں اور آمد بند ہوجاتی ہے جتنا انسان مؤدب اور منکسر المزاج
ہوگا اتنی ہی زیادہ بصیرت قلبی حاصل ہوگی ،اور اس کا تعلق باطن سے ہے جس کو
صرف اہل باطن ہی سمجھ سکتے ہیں ،اہل ظاہر کواس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو
سکتا ۔’’جب ظاہر اور باطن ایک ہوجائیں تو انسان کو معراج ہوجاتی ہے‘‘۔
بات چل رہی ہے’’ نسیان‘‘ اور ’’اُنس‘‘ کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے ۔اندھی سے مراد ’’غلو‘‘ ہے اور غلو کا نام ہی محبت ہے اگر محبت میں غلو نہ ہو تو وہ کامل محبت نہیں ہوسکتی ۔اور محبت میں انسان عقل کے تابع نہ ہوکر دل کے تابع ہوجاتا ہے ۔اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے،جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا : رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى۰ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۰ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۰ۭ
اور جب ابراہیم نے (اللہ تعالیٰ سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔
دیکھئے یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اطمینان قلب کے لیے اللہ تعالیٰ سے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی فرمائش پوری بھی فرمائی ۔ لیکن یاد رہے یہ محبت کی داستان ہے ۔کہاں یہ سوال اور کہاں وہ جواب کہ نار نمرود ہے اور خلیل اللہ علیہ السلام ہیں کہ فرشتوں کو جواب مرحمت فرمارہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ ادھر نار نمرود ہے اور ادھر اس کا خلیل(علیہ السلام) ہےمجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ (یہاں بھی ایک نکتہ ہے کہ کبھی بڑوں سے آزمائش والا سوال نہیں کرنا چاہئے )یہ تو تھی قلب کی مثال ، جس انسان کاقلب محبت کے تابع ہوتا ہے ،اس کو خلیل کہا جاتا ہے،اور جو محبت انسان کے دل و دماغ کے تابع ہوتی ہے اس کو’’ حبیب‘‘ کہا جاتا ہےاس کی مثال حبیب الٰہ حضور ﷺ کی ذات گرامی ہے کہ آپ ﷺ کانفس اور خواہشات آپ ﷺ کے تابع تھی اللہ تعالیٰ کی محبت دل ودماغ پر غالب تھی ، آپ ﷺ نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی غرض کوئی خواہش نہ رکھی آپ ﷺکا نفس آپ کے تابع تھا یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ پر تکمیل انسانیت فرمادی گئی دنیا جہان کی تمام نعمتیں آپ ﷺ کےقدموں میں رکھی گئیں،لیکن آپ ﷺ نے ادھر کوئی التفات بھی نہیں فرمایا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ ﷺ کو معراج کرائی گئی جو انسانیت کا اعلیٰ ترین مقام ہے جو نہ کسی کوحاصل ہوا اور نہ ہوگا اسی وجہ سے آپ ﷺ کو ’’انک لعلیٰ خلق عظیم ‘‘کے خطاب سے نوازہ گیا ۔
یہ تو تھا خواص کا معاملہ اب رہا عوام کا معاملہ جن کا دل ودماغ خواہشات کے تابع ہوتا ہے ،ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاءورسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایاان کے بعد یہ کام صلحاء اتقیاء علماء واولیاء کرام کے سپرد ہوا ۔یاد رہے کبھی یہ ساری صفات عالم میں ہوا کرتی تھیں جو عالم ہوتا تھاوہ صالح ،متقی،بھی ہوا کرتا تھا اور ولی بھی ہوا کرتا تھا ۔ جہاں تک انبیاء کرام علیہم السلام کا معاملہ ہے تو ان کا معاملہ جدا گانہ ہے ان کی ذات گرامی بہت سے اوصاف سے متصف ہوتی تھی جو ہر فرد وبشر کے بس کی بات نہیں اس لیے ان مجموعہ بشریت(انبیاء ورسل علیہم السلام) کے بعد ان کے اوصاف سے الگ الگ انسان متصف ہوئے ۔ کوئی فقیہ ہوا تو کوئی محدث تو کوئی قاری اسی طرح سے کوئی حافظ قرآن ہوا تو کوئی مفسر قرآن کوئی ولی ہوا تو کوئی مجاہد بہر حال یہ انسان کی مختلف نوعیتیں(صفات)ہیں جس کے الگ الگ ماہرین ہوئے سب کا مقصد ایک ہی تھا یعنی انسانیت کی فلاح وبہبود دنیا وآخرت کی کامیابی ایک اللہ کی عبادت اور اس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا۔ان میں سے ایک جماعت اولیا ء کرام کی ہے جن کو ہم برصغیر میں صوفیا ء کرام کے نام سے جانتے ہیں اور اس کام کو’’ طریقت‘‘ کہتے ہیں عوام الناس اس کو پیری مریدی سے تعبیر کرتی ہے۔ مقصدان کا بھی شریعت اسلامی کی رہنمائی میں انسان کوشرک سے پاک زندگی گزارنے کی دعوت دینا اور اللہ تعالیٰ کا معبود حقیقی بنانا ہے۔اگرچہ اس جماعت میں افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے اور کچھ شعبدے باز بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اس لائن کو بدنام کردیا اور لوگوں کو گمراہی کی طرف مائل کردیا اور بہت سی مشرکانہ حرکتیں بھی کرتے ہیں ۔یہاں ہمارا موضوع سخن ان شعبدے بازوں یا جعل سازوں سے نہیں ہمارا مطمح نظرتو صرف حقیقی مصلح قوم اولیاء عظام واتقیاء کرام سے ہے جن کی محنتوں سے پورےعالم میںعموما اور برصغیر میں خصوصا دین اسلام پھیلا جن کی محنتوں سے بے دین بادین ہوگئے ۔ چنانچہ ذیل میں پیش خدمت ہے کہ شریعت اسلامی میں اس ’’طریقت ‘‘کی کیا حقیقت ہے اور کیا یہ شریعت سے متعارض تو نہیں ہے،یا شریعت اور طریقت کی ایک ہی حقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ (النساء)
اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ (۲)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّہً وَّلاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ۔ (البقرہ)
اے ایمان والوداخل ہوجائو اسلام میں پورے طور پر اور مت چلو قدموں پر شیطان کے۔ (۳) ثم جعلنٰک علی شریعۃ من الامرفتبعھا ولا تتبع اھواء الذین لا یعلمون (الآیہ)
پھر آپ کورکھا ہم نے ایک رستہ پر دین کے سو آپ اس پر چلئے اور مت چلو نا دانوں کی خواہشوں پر۔ (۴)ھذا بصائر للناس وھدی ورحمۃلقوم یوقنون۔ (الجاثیۃ)
یہ تعلیم لوگوں کیلئے سمجھ بوجھ اور ہدایت ہے اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اس پر یقین رکھتے ہیں
مندرجہ بالا آیات شریفہ میںاللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ ہدایت وکامرانی صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور فرما ںبرداری ہی میں ہے۔ اور دین کا وہ خاص طریقہ (شریعت )جو ہم نے بھیجا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کیجئے۔جا ہلوں کی اتباع سے بچواور ان کی خواہشات کی پے روی نہ کرو ۔اس لئے کہ ہمارا بتایا ہوا طریقہ یعنی شریعت ہی تمام انسانوں کے لئے دانشمندی کا سبب اور ہدایت کا ذریعہ ہے ۔اور جو ہماری باتوں پر یقین یعنی ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے رحمت کا باعث ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {ومن یتبع غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منہ }
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ اور کوئی دین چاہے ،تو اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔
انسان جو کہ فطرتاً جلد باز ہے اور اپنے گردوپیش کے ماحول اور معاشرہ سے بہت جلدمتائثر ہو جاتا ہے اور کشف وکرامات وظاہری چمک دمک کو ہی اصل دین اور شریعت سمجھ بیٹھتا ہے نتیجتاً راہ راست سے بھٹک جاتاہے ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کو بطور خاص نازل فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوںکو فطری طور پر کچھ ایسے اوصاف حمیدہ ،اخلاق وعادات اور جوہر لطیفہ سے نوازہ ہے کہ اگر وہ ان کو ماحول اور معاشرہ کی آلودگیوں سے محفوظ رکھ لے تو انسان اس راہ مستقیم کی طرف قدم بقدم بڑھتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر فرما رکھا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {فطرۃاللّٰہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللّٰہ} (الآیہ)
(وہی تراش ہے اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو ۔اللہ کے بنائے ہوئے کو بد لنا نہیں ہے)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں: کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہِ وسلّم یَذکُراللّٰہ عَلی کل احیانٍ (الحدیث)
(جناب رسول اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے تھے)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: تنا م عینائی ولا ینام قلبی (الحدیث) (یعنی میری آنکھیں سوتی ہیں میرا دل نہیں سوتا)۔ بہر حال تو ذکرکے لئے کس قدر آسانیاں ہیں کہ ذکر اللہ کے عذاب سے نجات دلانیوالا ہے اور کوئی عبادت نہیں۔
ذکر کرنے کا حکم جہاد کرتے وقت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ { یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}
یعنی جب تمہاری مڈبھیڑ دشمن سے ہو تو جم جاؤاور خدا کا ذکر کرو۔
آقائے نامدار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لِکُلِّ شَیئٍ صِقالۃٌ وصِقالۃُ القُلُوبِ ذِکرُ اللّٰہِ۔
ہر چیز کو صاف کرنے والی چیزیں ہوتی ہیں اور دلوں کو صاف کرنے والا اللہ کا ذکر ہے۔ ’’صقالہ‘‘ مانجھنے کو کہتے ہیں کہ جس سے تابنے، پیتل، لوہے کے برتن مانجھے جاتے ہیں۔ اور برتن میں چمک پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سے اللہ کے ذکر سے دل کا زنگ دور ہوجاتا ہے، جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نقطہ لگ جاتا ہے اگر اس نے استغفراللہ کہا یا توبہ کی اور گناہوں کی معافی چاہی تو فرماتے ہیں
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک بدوی نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺشریعت کے احکام تو بہت ہیں مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو سب سے زیادہ مفید ہو۔تو آپ نے ارشاد فرمایاکہ: لا یزال لسانک رطباً بذکراللّٰہ
یعنی ہر وقت تیری زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تروتازہ رہے
آقائے نامدار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ۔ ما عمل ابن آدم من عمل انجی لہ من عذاب اللہ من ذکر اللہ ،
آدم کے بیٹے کا کوئی عمل اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اتنا نجات دلانیوالا نہیں جتنا اللہ تعالیٰ کا ذکرہے۔
اور رہبر انسانیت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے۔ انما الولد یولد علی الفطرۃ فا بواہ یہوِّدانہ او ینصرانہ او یمجّسانہ (الحدیث)
بیشک بچہ فطرت کے مطابق پیدا ہوتاہے لیکن اسکے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
چنانچہ انسان میں جتنے اخلاق رذیلہ ہیں ان کی کم سے کم تر اور بد سے بدتر صورت ما حول اور معاشرہ کی پروردہ ہے مثلاًفطرت انسانیہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ صرف اپنے کسب سے مستفید ہو اور دوسروں کے کسب پر نظر نہ رکھے ۔لیکن اس کے خلاف چوری ڈاکہ زنی ،قطع طریق،طراری، نباشی ،سود ،سٹہ،کسب مال کی بد ترین صورتیں انسان اپنے ماحول اور معاشرہ سے متأثر ہو کر اختیار کرتاہے ۔اسی طرح اطوار خوش اور اخلاق پسندیدہ کا مظاہرہ ان ہی شخصیتوں سے ہو تا ہے کہ جن کی تربیت صالح ترین ہاتھوں میں ہوئی ہو، کیونکہ مبدائے فیاض کے عطا کردہ جواہرات جب نمو پزیر ہو تے ہیں تو وہ اپنی لطافت و نزاکت کے باعث مربیانہ ماحول ومعاشرہ کے اثرات جلد قبول کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ کوئی شجر نوخیز اپنے نمو کے وقت راہ میں آڑ پا کر اپنی بڑھوتڑی کے لئے راہ کج اختیار کرکے ٹیڑھا ہو جاتا ہے ورنہ سیدھا چل کر برگ وبار لاتا ہے۔
اسلام اور تعلیمات اسلام کا صرف یہی منشأہے کہ انسانی دل ودماغ نے جب اپنے نمو کے وقت ماحول سے متأثر ہوکر جو اخلاق رذیلہ اور اطوار نا پسندیدہ اختیارکر لئے تھے کہ جنہوں نے اپنے عروج پر پہونچ کر کفر وشرک ،یہودیت ،نصرانیت، دہریت ، فسق وفجور ،عصیان وطغیان کی صورتیں اختیار کرلی تھیں ان سب کو ملیا میٹ کردیا جائے۔اورفطری اخلاق کے اوپر سے ان سیاہ ترین تودوںکو کھرچ دیا جائے۔تاکہ یہ اخلاق پلٹ کر اپنی فطری راہ (جس کو صراط مستقیم کہا جاتاہے)پر گامزن ہوجائے ؎
بات چل رہی ہے’’ نسیان‘‘ اور ’’اُنس‘‘ کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے ۔اندھی سے مراد ’’غلو‘‘ ہے اور غلو کا نام ہی محبت ہے اگر محبت میں غلو نہ ہو تو وہ کامل محبت نہیں ہوسکتی ۔اور محبت میں انسان عقل کے تابع نہ ہوکر دل کے تابع ہوجاتا ہے ۔اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے،جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا : رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى۰ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۰ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۰ۭ
اور جب ابراہیم نے (اللہ تعالیٰ سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔
دیکھئے یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اطمینان قلب کے لیے اللہ تعالیٰ سے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی فرمائش پوری بھی فرمائی ۔ لیکن یاد رہے یہ محبت کی داستان ہے ۔کہاں یہ سوال اور کہاں وہ جواب کہ نار نمرود ہے اور خلیل اللہ علیہ السلام ہیں کہ فرشتوں کو جواب مرحمت فرمارہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ ادھر نار نمرود ہے اور ادھر اس کا خلیل(علیہ السلام) ہےمجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ (یہاں بھی ایک نکتہ ہے کہ کبھی بڑوں سے آزمائش والا سوال نہیں کرنا چاہئے )یہ تو تھی قلب کی مثال ، جس انسان کاقلب محبت کے تابع ہوتا ہے ،اس کو خلیل کہا جاتا ہے،اور جو محبت انسان کے دل و دماغ کے تابع ہوتی ہے اس کو’’ حبیب‘‘ کہا جاتا ہےاس کی مثال حبیب الٰہ حضور ﷺ کی ذات گرامی ہے کہ آپ ﷺ کانفس اور خواہشات آپ ﷺ کے تابع تھی اللہ تعالیٰ کی محبت دل ودماغ پر غالب تھی ، آپ ﷺ نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی غرض کوئی خواہش نہ رکھی آپ ﷺکا نفس آپ کے تابع تھا یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ پر تکمیل انسانیت فرمادی گئی دنیا جہان کی تمام نعمتیں آپ ﷺ کےقدموں میں رکھی گئیں،لیکن آپ ﷺ نے ادھر کوئی التفات بھی نہیں فرمایا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ ﷺ کو معراج کرائی گئی جو انسانیت کا اعلیٰ ترین مقام ہے جو نہ کسی کوحاصل ہوا اور نہ ہوگا اسی وجہ سے آپ ﷺ کو ’’انک لعلیٰ خلق عظیم ‘‘کے خطاب سے نوازہ گیا ۔
یہ تو تھا خواص کا معاملہ اب رہا عوام کا معاملہ جن کا دل ودماغ خواہشات کے تابع ہوتا ہے ،ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاءورسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایاان کے بعد یہ کام صلحاء اتقیاء علماء واولیاء کرام کے سپرد ہوا ۔یاد رہے کبھی یہ ساری صفات عالم میں ہوا کرتی تھیں جو عالم ہوتا تھاوہ صالح ،متقی،بھی ہوا کرتا تھا اور ولی بھی ہوا کرتا تھا ۔ جہاں تک انبیاء کرام علیہم السلام کا معاملہ ہے تو ان کا معاملہ جدا گانہ ہے ان کی ذات گرامی بہت سے اوصاف سے متصف ہوتی تھی جو ہر فرد وبشر کے بس کی بات نہیں اس لیے ان مجموعہ بشریت(انبیاء ورسل علیہم السلام) کے بعد ان کے اوصاف سے الگ الگ انسان متصف ہوئے ۔ کوئی فقیہ ہوا تو کوئی محدث تو کوئی قاری اسی طرح سے کوئی حافظ قرآن ہوا تو کوئی مفسر قرآن کوئی ولی ہوا تو کوئی مجاہد بہر حال یہ انسان کی مختلف نوعیتیں(صفات)ہیں جس کے الگ الگ ماہرین ہوئے سب کا مقصد ایک ہی تھا یعنی انسانیت کی فلاح وبہبود دنیا وآخرت کی کامیابی ایک اللہ کی عبادت اور اس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا۔ان میں سے ایک جماعت اولیا ء کرام کی ہے جن کو ہم برصغیر میں صوفیا ء کرام کے نام سے جانتے ہیں اور اس کام کو’’ طریقت‘‘ کہتے ہیں عوام الناس اس کو پیری مریدی سے تعبیر کرتی ہے۔ مقصدان کا بھی شریعت اسلامی کی رہنمائی میں انسان کوشرک سے پاک زندگی گزارنے کی دعوت دینا اور اللہ تعالیٰ کا معبود حقیقی بنانا ہے۔اگرچہ اس جماعت میں افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے اور کچھ شعبدے باز بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اس لائن کو بدنام کردیا اور لوگوں کو گمراہی کی طرف مائل کردیا اور بہت سی مشرکانہ حرکتیں بھی کرتے ہیں ۔یہاں ہمارا موضوع سخن ان شعبدے بازوں یا جعل سازوں سے نہیں ہمارا مطمح نظرتو صرف حقیقی مصلح قوم اولیاء عظام واتقیاء کرام سے ہے جن کی محنتوں سے پورےعالم میںعموما اور برصغیر میں خصوصا دین اسلام پھیلا جن کی محنتوں سے بے دین بادین ہوگئے ۔ چنانچہ ذیل میں پیش خدمت ہے کہ شریعت اسلامی میں اس ’’طریقت ‘‘کی کیا حقیقت ہے اور کیا یہ شریعت سے متعارض تو نہیں ہے،یا شریعت اور طریقت کی ایک ہی حقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ (النساء)
اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ (۲)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّہً وَّلاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ۔ (البقرہ)
اے ایمان والوداخل ہوجائو اسلام میں پورے طور پر اور مت چلو قدموں پر شیطان کے۔ (۳) ثم جعلنٰک علی شریعۃ من الامرفتبعھا ولا تتبع اھواء الذین لا یعلمون (الآیہ)
پھر آپ کورکھا ہم نے ایک رستہ پر دین کے سو آپ اس پر چلئے اور مت چلو نا دانوں کی خواہشوں پر۔ (۴)ھذا بصائر للناس وھدی ورحمۃلقوم یوقنون۔ (الجاثیۃ)
یہ تعلیم لوگوں کیلئے سمجھ بوجھ اور ہدایت ہے اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اس پر یقین رکھتے ہیں
مندرجہ بالا آیات شریفہ میںاللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ ہدایت وکامرانی صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور فرما ںبرداری ہی میں ہے۔ اور دین کا وہ خاص طریقہ (شریعت )جو ہم نے بھیجا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کیجئے۔جا ہلوں کی اتباع سے بچواور ان کی خواہشات کی پے روی نہ کرو ۔اس لئے کہ ہمارا بتایا ہوا طریقہ یعنی شریعت ہی تمام انسانوں کے لئے دانشمندی کا سبب اور ہدایت کا ذریعہ ہے ۔اور جو ہماری باتوں پر یقین یعنی ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے رحمت کا باعث ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {ومن یتبع غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منہ }
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ اور کوئی دین چاہے ،تو اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔
انسان جو کہ فطرتاً جلد باز ہے اور اپنے گردوپیش کے ماحول اور معاشرہ سے بہت جلدمتائثر ہو جاتا ہے اور کشف وکرامات وظاہری چمک دمک کو ہی اصل دین اور شریعت سمجھ بیٹھتا ہے نتیجتاً راہ راست سے بھٹک جاتاہے ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کو بطور خاص نازل فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوںکو فطری طور پر کچھ ایسے اوصاف حمیدہ ،اخلاق وعادات اور جوہر لطیفہ سے نوازہ ہے کہ اگر وہ ان کو ماحول اور معاشرہ کی آلودگیوں سے محفوظ رکھ لے تو انسان اس راہ مستقیم کی طرف قدم بقدم بڑھتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر فرما رکھا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {فطرۃاللّٰہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللّٰہ} (الآیہ)
(وہی تراش ہے اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو ۔اللہ کے بنائے ہوئے کو بد لنا نہیں ہے)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں: کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہِ وسلّم یَذکُراللّٰہ عَلی کل احیانٍ (الحدیث)
(جناب رسول اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے تھے)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: تنا م عینائی ولا ینام قلبی (الحدیث) (یعنی میری آنکھیں سوتی ہیں میرا دل نہیں سوتا)۔ بہر حال تو ذکرکے لئے کس قدر آسانیاں ہیں کہ ذکر اللہ کے عذاب سے نجات دلانیوالا ہے اور کوئی عبادت نہیں۔
ذکر کرنے کا حکم جہاد کرتے وقت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ { یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}
یعنی جب تمہاری مڈبھیڑ دشمن سے ہو تو جم جاؤاور خدا کا ذکر کرو۔
آقائے نامدار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لِکُلِّ شَیئٍ صِقالۃٌ وصِقالۃُ القُلُوبِ ذِکرُ اللّٰہِ۔
ہر چیز کو صاف کرنے والی چیزیں ہوتی ہیں اور دلوں کو صاف کرنے والا اللہ کا ذکر ہے۔ ’’صقالہ‘‘ مانجھنے کو کہتے ہیں کہ جس سے تابنے، پیتل، لوہے کے برتن مانجھے جاتے ہیں۔ اور برتن میں چمک پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سے اللہ کے ذکر سے دل کا زنگ دور ہوجاتا ہے، جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نقطہ لگ جاتا ہے اگر اس نے استغفراللہ کہا یا توبہ کی اور گناہوں کی معافی چاہی تو فرماتے ہیں
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک بدوی نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺشریعت کے احکام تو بہت ہیں مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو سب سے زیادہ مفید ہو۔تو آپ نے ارشاد فرمایاکہ: لا یزال لسانک رطباً بذکراللّٰہ
یعنی ہر وقت تیری زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تروتازہ رہے
آقائے نامدار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ۔ ما عمل ابن آدم من عمل انجی لہ من عذاب اللہ من ذکر اللہ ،
آدم کے بیٹے کا کوئی عمل اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اتنا نجات دلانیوالا نہیں جتنا اللہ تعالیٰ کا ذکرہے۔
اور رہبر انسانیت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے۔ انما الولد یولد علی الفطرۃ فا بواہ یہوِّدانہ او ینصرانہ او یمجّسانہ (الحدیث)
بیشک بچہ فطرت کے مطابق پیدا ہوتاہے لیکن اسکے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
چنانچہ انسان میں جتنے اخلاق رذیلہ ہیں ان کی کم سے کم تر اور بد سے بدتر صورت ما حول اور معاشرہ کی پروردہ ہے مثلاًفطرت انسانیہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ صرف اپنے کسب سے مستفید ہو اور دوسروں کے کسب پر نظر نہ رکھے ۔لیکن اس کے خلاف چوری ڈاکہ زنی ،قطع طریق،طراری، نباشی ،سود ،سٹہ،کسب مال کی بد ترین صورتیں انسان اپنے ماحول اور معاشرہ سے متأثر ہو کر اختیار کرتاہے ۔اسی طرح اطوار خوش اور اخلاق پسندیدہ کا مظاہرہ ان ہی شخصیتوں سے ہو تا ہے کہ جن کی تربیت صالح ترین ہاتھوں میں ہوئی ہو، کیونکہ مبدائے فیاض کے عطا کردہ جواہرات جب نمو پزیر ہو تے ہیں تو وہ اپنی لطافت و نزاکت کے باعث مربیانہ ماحول ومعاشرہ کے اثرات جلد قبول کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ کوئی شجر نوخیز اپنے نمو کے وقت راہ میں آڑ پا کر اپنی بڑھوتڑی کے لئے راہ کج اختیار کرکے ٹیڑھا ہو جاتا ہے ورنہ سیدھا چل کر برگ وبار لاتا ہے۔
اسلام اور تعلیمات اسلام کا صرف یہی منشأہے کہ انسانی دل ودماغ نے جب اپنے نمو کے وقت ماحول سے متأثر ہوکر جو اخلاق رذیلہ اور اطوار نا پسندیدہ اختیارکر لئے تھے کہ جنہوں نے اپنے عروج پر پہونچ کر کفر وشرک ،یہودیت ،نصرانیت، دہریت ، فسق وفجور ،عصیان وطغیان کی صورتیں اختیار کرلی تھیں ان سب کو ملیا میٹ کردیا جائے۔اورفطری اخلاق کے اوپر سے ان سیاہ ترین تودوںکو کھرچ دیا جائے۔تاکہ یہ اخلاق پلٹ کر اپنی فطری راہ (جس کو صراط مستقیم کہا جاتاہے)پر گامزن ہوجائے ؎
’’دل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے‘‘
چونکہ ان فطری اخلاق وعادات میں ایک قسم کی نورانیت ہے لہٰذا جب ان
کو صالح ترین معاشرہ نیک ترین مربی مل جاتے ہیںتو ان کی نورانیت کا پاور
بڑھ جاتا ہے گویا یہ سب چیزیں ان کے لئے پاور ہاؤس کا کام کرتی ہیں۔ نتیجہ
یہ ہوتا ہے کہ ان اخلاق حسنہ کا مجسمہ نورانیت کے پسندیدہ القاب، ولایت
،قطبیت،غوثیت اور ابدالیت کا مسمیٰ ہوتا ہے۔جس کو ہر وقت اپنے خالق کا قرب
حاصل ہوتا ہے اور یہی منشاءربانی ہے۔
{وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون }
اور ہم نے جن اور انس کواپنی ہی تابعداری کے لئے پیدا کیا ہے
اور انسان کی صل تابعداری یہی ہے کہ وہ خدا کی عطا کردہ قوتوں کو صراط مستقیم سے نہ بھٹکنے دے۔
حضرات انبیاء علیہم السلام یہی کام کیاہے کہ اپنی قوت ملکوتیہ کے ذریعہ بگڑے ہوئے انسانوں کو اخلاقی پستی سے نکال کر اسی صراط مستقیم پر ڈالدیا جس سے ماحول اور معاشرے نے بھٹکا دیا تھا۔چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے۔ انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (الحدیث)
میں اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہؓ نے اخلاقیات کی اسی شاہراہ پر لگائے رکھا اور اس سے بھٹکے ہوئے لوگوںکو ادھر بلایا۔
یہ حضرات چونکہ تربیت یافتہ از علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اوران کا ماحول بھی خیر القرون تھا اس لئے اس وقت بھٹکے ہوؤں کو صرف’’ الطریق الطریق‘‘ کہدینا ہی کا فی تھا اور بس ،لیکن جوں جوںزمانہ رسالت سے بعد ہوتا گیا ویسے ہی ماحول پر طغیانی وعصیانی بادل چھاتے گئے اور طاغوتیت کی مسموم ہوائیں چلنے لگیں لہٰذا اس ماحول میںجو بھی طاغوتیت کے قریب ہوا برباد ہوگیا لیکن جس نے صالح ہاتھوں میںتربیت پائی اور جو علوم نبوت کی نگرانی میں رہا اس کے لئے وہی فطری راہ کھلی رہی‘‘جس کو ہم شریعت کہتے ہیں۔
اور ہم نے جن اور انس کواپنی ہی تابعداری کے لئے پیدا کیا ہے
اور انسان کی صل تابعداری یہی ہے کہ وہ خدا کی عطا کردہ قوتوں کو صراط مستقیم سے نہ بھٹکنے دے۔
حضرات انبیاء علیہم السلام یہی کام کیاہے کہ اپنی قوت ملکوتیہ کے ذریعہ بگڑے ہوئے انسانوں کو اخلاقی پستی سے نکال کر اسی صراط مستقیم پر ڈالدیا جس سے ماحول اور معاشرے نے بھٹکا دیا تھا۔چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے۔ انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (الحدیث)
میں اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہؓ نے اخلاقیات کی اسی شاہراہ پر لگائے رکھا اور اس سے بھٹکے ہوئے لوگوںکو ادھر بلایا۔
یہ حضرات چونکہ تربیت یافتہ از علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اوران کا ماحول بھی خیر القرون تھا اس لئے اس وقت بھٹکے ہوؤں کو صرف’’ الطریق الطریق‘‘ کہدینا ہی کا فی تھا اور بس ،لیکن جوں جوںزمانہ رسالت سے بعد ہوتا گیا ویسے ہی ماحول پر طغیانی وعصیانی بادل چھاتے گئے اور طاغوتیت کی مسموم ہوائیں چلنے لگیں لہٰذا اس ماحول میںجو بھی طاغوتیت کے قریب ہوا برباد ہوگیا لیکن جس نے صالح ہاتھوں میںتربیت پائی اور جو علوم نبوت کی نگرانی میں رہا اس کے لئے وہی فطری راہ کھلی رہی‘‘جس کو ہم شریعت کہتے ہیں۔
شریعت ، طریقت، حقیقت، و معرفت
شریعت ایک ایسا قانون الٰہی ہے کہ جس میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا اور
شریعت کی متابعت کے بغیر انسانیت کا کمال ناممکن ہے ۔قلب کی صفائی اور
روحانیت کے لئے نہایت ضروری ہے کہ شریعت کی اتباع کی جائے ۔حضرت ؒ نے
فرمایا ’’اگر کوئی بڑاسے بڑا ولی اور قطب خلاف شریعت کوئی
کام کرتا ہے تو اس کی ولایت اور روحانیت کو نقصان پہونچتا ہے۔یہ ممکن ہی
نہیں کہ کوئی شریعت کی مدد لئے بغیر روحانیت اور ولایت کی دشوار گھاٹیوں
اور منازل کو طے کرلے۔‘‘
’’یک فعل غیر مشروع بندہ را از مرتبۂ ولایت بیفگند‘‘
لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے اور اپنا محبوب بندہ بنالے تو اس کو چاہئے کہ کتاب وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرے۔ {ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ}(الآیہ)
اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری راہ پر چلو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے۔
اسی کا نام شریعت ہے اسی کو طریقت ،سلوک یا تصوف کہتے ہیں۔ اس بارے میں اکا بر کے چند اقوال پیش خدمت ہیں:
(۱)تصوف طبیعت کی پاکیزگی ہے کہ انسان میں چھپی رہتی ہے۔ (ابن عطاؒ)
(۲)تصوف نام ہے خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مگر اس طرح کہ اس معیت کو بجز خدا کے کوئی اور نہ جانتا ہو۔ (سہیلؒ،جنیدؒ)
(۳)دل کی صفائی حاصل کرنے کا نام احسان اور یہی تصوف کا مقصد ہے ،تصوف کا مقصد کوئی نئی چیز نہیں ہے ،حدیث جبرئیل میں جو کچھ ہے وہی سچ ہے ۔ (حضرت مدنیؒ) ( حاشیہ :حدیث جبرئیل جس کو حضرت امام اعظمؒ نے روایت کیا ہے اس کے الفاظ بہت جامع اور اس کے معنی ٰ میں زیادہ عمویت ہے۔یعنی ’’ان تعمل للِّٰہِ کانّکَ تراہ‘ ‘‘(الخ)یعنی تو اللہ کے لئے اس طرح عمل کر گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔[
(۴)فطرت انسانی کو جس طرح بھی شریعت کے مطابق کرلیا جائے اسی کا نام سلوک ہے۔ (حضرت والدجناب مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ)
الحاصل شریعت تمام افعال واعمال ظاہری وباطنی کے مجموعہ کا نام ہے جن کو دو الگ الگ نام دیدیا گیا۔اعمال ظاہری کو ’’فقہ ‘‘ اور اعمال باطنی کو’’ طریقت‘‘یا ’’تصوف‘‘ کہا جانے لگا۔
ان اعمال ظاہری وباطنی کی اصلاح کے یعنی تز کیہ نفس کے بعد عمل خالص کی وجہ سے قلب میں جِلا ،صفائی ونورانیت پیدا ہو جاتی ہے ،ظلمت کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور عرفانی ہوائیں چلنے لگتی ہیں ،اور وہ معاملات جو بین اللہ اور بین العبد پوشیدہ ہوتے ہیں وہ منکشف ہونے لگتے ہیں،ان مکشوفات کو شریعت کی اصطلاح میں ’’ حقیقت ‘‘ کہتے ہیں ،اور ان انکشافات کو ’’ معرفت ‘‘ کہتے ہیں اور جس پر یہ حالات منکشف ہوتے ہیں اس کو ’’عارف ‘‘کہتے ہیں۔اور بقول شاعر ؎
’’یک فعل غیر مشروع بندہ را از مرتبۂ ولایت بیفگند‘‘
لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے اور اپنا محبوب بندہ بنالے تو اس کو چاہئے کہ کتاب وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرے۔ {ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ}(الآیہ)
اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری راہ پر چلو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے۔
اسی کا نام شریعت ہے اسی کو طریقت ،سلوک یا تصوف کہتے ہیں۔ اس بارے میں اکا بر کے چند اقوال پیش خدمت ہیں:
(۱)تصوف طبیعت کی پاکیزگی ہے کہ انسان میں چھپی رہتی ہے۔ (ابن عطاؒ)
(۲)تصوف نام ہے خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مگر اس طرح کہ اس معیت کو بجز خدا کے کوئی اور نہ جانتا ہو۔ (سہیلؒ،جنیدؒ)
(۳)دل کی صفائی حاصل کرنے کا نام احسان اور یہی تصوف کا مقصد ہے ،تصوف کا مقصد کوئی نئی چیز نہیں ہے ،حدیث جبرئیل میں جو کچھ ہے وہی سچ ہے ۔ (حضرت مدنیؒ) ( حاشیہ :حدیث جبرئیل جس کو حضرت امام اعظمؒ نے روایت کیا ہے اس کے الفاظ بہت جامع اور اس کے معنی ٰ میں زیادہ عمویت ہے۔یعنی ’’ان تعمل للِّٰہِ کانّکَ تراہ‘ ‘‘(الخ)یعنی تو اللہ کے لئے اس طرح عمل کر گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔[
(۴)فطرت انسانی کو جس طرح بھی شریعت کے مطابق کرلیا جائے اسی کا نام سلوک ہے۔ (حضرت والدجناب مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ)
الحاصل شریعت تمام افعال واعمال ظاہری وباطنی کے مجموعہ کا نام ہے جن کو دو الگ الگ نام دیدیا گیا۔اعمال ظاہری کو ’’فقہ ‘‘ اور اعمال باطنی کو’’ طریقت‘‘یا ’’تصوف‘‘ کہا جانے لگا۔
ان اعمال ظاہری وباطنی کی اصلاح کے یعنی تز کیہ نفس کے بعد عمل خالص کی وجہ سے قلب میں جِلا ،صفائی ونورانیت پیدا ہو جاتی ہے ،ظلمت کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور عرفانی ہوائیں چلنے لگتی ہیں ،اور وہ معاملات جو بین اللہ اور بین العبد پوشیدہ ہوتے ہیں وہ منکشف ہونے لگتے ہیں،ان مکشوفات کو شریعت کی اصطلاح میں ’’ حقیقت ‘‘ کہتے ہیں ،اور ان انکشافات کو ’’ معرفت ‘‘ کہتے ہیں اور جس پر یہ حالات منکشف ہوتے ہیں اس کو ’’عارف ‘‘کہتے ہیں۔اور بقول شاعر ؎
مجھے راز دوعالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آ نکھو ں کے آ تا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آ نکھو ں کے آ تا ہے
اور :
دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار
اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
بیعت وارادت
اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
بیعت وارادت
بیعت نام ہے کسی معتبر واقف کار شیخ کامل (جو پابند شریعت ہو)کو منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے رہبر بنا لینا۔ اور اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر عہد کرنا کہ تا عمر شریعت کا پابند رہوںگا اور شرک وبدعت سے دور رہوںگا۔صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اس کو ’’بیعتِ طریقت‘‘کہتے ہیں۔اور اس طریقہ کا مسنون ہونا احادیث سے ثابت ہے۔ عن عوف بن مالک الاشجعی قـال: کُنّا عِند النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم تسعۃ أو ثمانیۃ أو سبعۃ فقال الا تبایعون رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبسطنا أیدینا و قلنا علی ما نبایعک یا رسول اللّٰہ ،قال علی ان تعبدوا اللّٰہ ولا تشرکوا بہ شیائً وتصلوا الصلوٰتِ الخمس وتسمعوا وتطیعوا۔ ( مسلم، ابوداؤد، و نسائی)حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاضر تھے جو نو تھے یا آٹھ یا سات، آپؐ نے ارشاد فر مایا: کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے ہاتھ پھیلادئیے اور ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ سے کس امر پر بیعت کریں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ان اُمور پر کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور پانچوں نمازیں پڑھو اور (احکام) کو سنواور اطاعت کرو۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بیعت کرنا بدعت نہیں بلکہ مسنون ہے چنانچہ اگر کوئی شریعت کے مطابق اپنے دینی وقلبی اصلاح کے لئے کہ اس کی آخرت سنور جائے کسی کو اپنا مربی یا استاذ بنالے تو اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ فعل مستحسن ہے ؎
یہ کیفیت اسی کو ملتی ہے جس کے ہے مقدر میں
مے الفت نہ خم میں ہے نہ شیشہ میں نہ ساغر میں
مے الفت نہ خم میں ہے نہ شیشہ میں نہ ساغر میں
تصور شیخ:
تصور شیخ کو میرے والد محترم حضرت مفتی عزیز الرحمٰن نور اللہ مرقدہ
نے ناجائز قرار دیا ہےاس وجہ سےکہ تصورِ شیخ اور غیرمسلموں کا عقیدہ
’’دھیان، گیان‘‘ بالکل ایک ہے۔ غیرمسلموں کے عقیدے کے مطابق وہ بت کا دھیان
جماکر ’’پرماتما‘‘ کو پالیتے ہیں۔
یہاں میں اپنے والد محترم ؒ کےبصیرت افروز بیان ارشاد کو پیش خدمت کرتا ہوں۔
’’فرمایا: برصغیر کا تصوف ’’جوگیت اور سنیاسیت ‘‘ سے متأثر ہے زمانۂ قدیم سے ہی ہندستان(جب ملک تقسیم نہیں ہواتھا)چونکہ بت پرستی کا مر کزر ہا ہے اور بت پرستی کو ہی ’’پرماتما ‘‘تک پہنچنے کا ذریعہ مانتے ہیں ۔چنانچہ جب یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور تصوف کی طرف ان کا میلان ہوا تو ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے لئے انھوںنے تصورِ شیخ کو اختیار کیا۔ اس وقت کے صوفیائے کرام بہت محتاط طریقے سے اس کی اجازت دیا کرتے تھے ۔لیکن مغل بادشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں جب اسلام اور علمائے حق کی خوب تذلیل وتحقیر کی جانے لگی تو باطل پرستوں کی بن آئی اس وقت کے ظاہر پرست اور دنیا دار صوفیوں نے تصورِ شیخ کو تصوف کا لازمی جزو بنادیا اور رفتہ رفتہ یہ تصورِ شیخ بڑھتے بڑھتے پیرپرستی کی شکل اختیار کرگیا اور پیر کو ہی حاضر وناظر جاننے لگے‘‘۔
(مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ)
ہمارے اکابر میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے ۔
ان کے علاوہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہم جیسے جلیل القدر حضرات نے اچھا نہیں سمجھا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا:
’’مجھ کو اس تصورِ شیخ سے سخت انقباض ہے اس طرح انہماک کے ساتھ کسی مخلوق کی طرف توجہ کرناتوحید کے خلاف ہے۔ اس سے غیرت آتی ہے کہ غیر کی صورت ایسے طریق پر ذہن میں جمالیں جو حق تعالیٰ کے لئے زیبا تھا‘‘۔ (الکلام الحسن، ص:۷۶)
سلوک کا منشاء اور مقصود ہی ادنیٰ سے ادنیٰ شرک سے بیزاری ہے اور کہاں اتنا بڑا شرک؟ گو کہ ابتدائی مراحل ہی میں کیوں نہ ہو اس لئے کہ اگر اس دوران موت واقع ہوجائے تو کفر پر موت یقینی ہے۔ (اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے) ایک طرف تو ہم کہتے ہیں ’’لاالٰہ إلا اللہ‘‘ اور ساتھ ہی یہ آیات شریفہ بھی تلاوت کرتے ہیں {’ھُو الأوّلُ والآخرُ والظّاہِرُ والبَاطِنُ } اوریہ آیہ شریفہ{فمن کان یرجو لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحاًولا تشرک بعبادۃ ربہ احداً} اور دوسری طرف شیخ کو حاضر وناظر جاننا اور اس کا خیال جمانا عقل سے بعید ہے کیونکہ اسلام کا اور ایمان کامدار تصور شیخ پراور موجودہ تصوف پرتو ہے نہیں کہ جس پر عمل نہ کرنے سے ایمان یا اسلام ناقص رہ جائے۔
یہاں میں اپنے والد محترم ؒ کےبصیرت افروز بیان ارشاد کو پیش خدمت کرتا ہوں۔
’’فرمایا: برصغیر کا تصوف ’’جوگیت اور سنیاسیت ‘‘ سے متأثر ہے زمانۂ قدیم سے ہی ہندستان(جب ملک تقسیم نہیں ہواتھا)چونکہ بت پرستی کا مر کزر ہا ہے اور بت پرستی کو ہی ’’پرماتما ‘‘تک پہنچنے کا ذریعہ مانتے ہیں ۔چنانچہ جب یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور تصوف کی طرف ان کا میلان ہوا تو ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے لئے انھوںنے تصورِ شیخ کو اختیار کیا۔ اس وقت کے صوفیائے کرام بہت محتاط طریقے سے اس کی اجازت دیا کرتے تھے ۔لیکن مغل بادشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں جب اسلام اور علمائے حق کی خوب تذلیل وتحقیر کی جانے لگی تو باطل پرستوں کی بن آئی اس وقت کے ظاہر پرست اور دنیا دار صوفیوں نے تصورِ شیخ کو تصوف کا لازمی جزو بنادیا اور رفتہ رفتہ یہ تصورِ شیخ بڑھتے بڑھتے پیرپرستی کی شکل اختیار کرگیا اور پیر کو ہی حاضر وناظر جاننے لگے‘‘۔
(مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ)
ہمارے اکابر میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے ۔
ان کے علاوہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہم جیسے جلیل القدر حضرات نے اچھا نہیں سمجھا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا:
’’مجھ کو اس تصورِ شیخ سے سخت انقباض ہے اس طرح انہماک کے ساتھ کسی مخلوق کی طرف توجہ کرناتوحید کے خلاف ہے۔ اس سے غیرت آتی ہے کہ غیر کی صورت ایسے طریق پر ذہن میں جمالیں جو حق تعالیٰ کے لئے زیبا تھا‘‘۔ (الکلام الحسن، ص:۷۶)
سلوک کا منشاء اور مقصود ہی ادنیٰ سے ادنیٰ شرک سے بیزاری ہے اور کہاں اتنا بڑا شرک؟ گو کہ ابتدائی مراحل ہی میں کیوں نہ ہو اس لئے کہ اگر اس دوران موت واقع ہوجائے تو کفر پر موت یقینی ہے۔ (اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے) ایک طرف تو ہم کہتے ہیں ’’لاالٰہ إلا اللہ‘‘ اور ساتھ ہی یہ آیات شریفہ بھی تلاوت کرتے ہیں {’ھُو الأوّلُ والآخرُ والظّاہِرُ والبَاطِنُ } اوریہ آیہ شریفہ{فمن کان یرجو لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحاًولا تشرک بعبادۃ ربہ احداً} اور دوسری طرف شیخ کو حاضر وناظر جاننا اور اس کا خیال جمانا عقل سے بعید ہے کیونکہ اسلام کا اور ایمان کامدار تصور شیخ پراور موجودہ تصوف پرتو ہے نہیں کہ جس پر عمل نہ کرنے سے ایمان یا اسلام ناقص رہ جائے۔
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہردست ِ نباید داد دست
یہ چند گزارشات تھیں کسی جماعت کی تردید تنقیص یا تذلیل مقصود نہیں
میں نے اس طریقہ تعلیم اور طریقہ تربیت کو جیسا سمجھا آپ حضرات کی خدمت
عالیہ میں پیش فرمادیا اگر کہیں مجھ سے بھول چوک ہورہی تو مطلع فرمائیں
،کیوں کہ یہ احقر بھی اسی مرض میں مبتلا ہے اور یہی راستہ ہدایت مجھے واپس
اسلامی دنیا میں لایا اور اس کا ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔ فقط واللہ اعلم
بالصواب
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔