Friday, 19 April 2013

17:27
پیش کردہ : مفتی عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے جانب منزل

حضرت ابو عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مونڈھوں کو پکڑ کر فرمایا:
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنكبي فقال كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل وكان ابن عمر يقول إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء وخذ من صحتك لمرضك ومن حياتك لموتك (رواه البخاري

کہ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستہ طے کرنے والے ہو اور ابن عمرکہتے ہیں کہ جب شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو، اور جب صبح ہوجائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور اپنی صحت کے اوقات سے اپنی مرض کے اوقات کے لیے حصہ لے لے اور اپنی حیات کے وقت سے اپنی موت کے لئےکچھ حصہ لے لے۔( صحیح بخاری)
اس حدیث شریف کو احمد ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی بیان کیا ہے اما م ترمذی ؒ کی روایت میں’’ اے عبداللہ تم نہیں جانتے کہ کل تمہیں کیا کہا جائے گا‘‘ کا اضافہ ہے۔
یہ حدیث شریف دنیا میں انسان کے قیام کی نوعیت کو ایسے بلیغ انداز میں واضح کرتی ہے کہ اس سے زیادہ بلاغت کسی انسانی کلام میں ممکن نہیں ،یہ حدیث مومن کو آگاہ کرتی ہے کہ وہ اپنے نصب العین اور مقصد حیات کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں ایک لمحہ کی غفلت بھی روا نہ رکھے، یہ حدیث تقاضا کرتی ہے کہ مومن زندگی کے آخری لمحہ تک خوشنودی رب کےحصول کے میں ایک مشین کی طرح متحرک رہے ،اس حدیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں ان کا مختصراً ذکر اس طرح ہے۔
’’میرے مونڈھوں کو پکڑ کر فرمایا ‘‘اس سے معلوم ہوا اس طرح کا عمل کسی قابل احترام ہستی کا اپنے کسی عزیز کے مونڈھوں کا تھامنا ،اس کے ذہن کو بیدار کرنا یا اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے ، اس کے علاووہ بھی مخاطب کو اپنی طرف متوجہ کرنےکے لیے اور بھی طریقہ ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہے، یہاں مونڈھوں کو پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی معلوم دیتی ہے کہ آئندہ کہی جانے والی بات کتنی اہم ہے اور مخاطب کواس کی اہمیت کا بخوبی احساس ہوجائے، اس کے علاوہ ایک غرض یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مخاطب متکلم کی شفقت اور بے تکلفی سے بھی متائر ہو اور اس کا دل شکر اور محبت سے لبریز ہوجائے اور وہ اپنے آپ کو متکلم سے زیادہ قریب محسوس کرنے لگے،چناچہ اس کیفیت سے جو بات کہی جائے گی اور بہت زیادہ مؤ ثراورزیادہ نر م اور دل نشین ہوگی۔
آج بھی ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے مونڈھے کو تھامے ہوگا اس وقت ان کے دل کی کیفیت کاکیا حال ہوگا ،اور ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اخلاق کریمانہ پر کتنی بے پایاں مسرت ہوئی ہوگی، چنانچہ اس مختصر سے ٹکڑے سے ہمیں اپنے موقف کو اپنے عزیزوں یا مخاطَب ْ تک کلمہ خیر پہنچانے کی تربیت ملتی ہے ، اور اس میں ایک داعی کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ایک داعی کے اخلاق کس طرح کے ہونے چاہئے اور کس طرح سے اس کو اپنی بات مدعو تک پہنچانی چاہیے ، داعی کے اس طرز عمل سے مدعو اتنا متاءثر ہوجاتا ہے کہ وہ داعی کی بات سننے کے لیے ہمہ تن گوش متوجہ ہوجاتا ہے اور پھر اس کی بات کو غور سے سنتا ہے او ر پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے عمل بھی کرتا ہے، اور داعی اور مدعو دونوں کو اس کا اجر ابھی ملتا ہے۔

اس حدیث شریف سے ہمیں ایک بات یہ بھی ملتی ہے کہ دنیا میں اس طرح رہو، کہ گویا تم مسافر ہو۔ یاکسی راستے کو عبور کررہے ہو،اس حدیث پاک میں ایک انسان کو غریب مسافر کہہ کر خطاب فرمایا گیا بلکہ اس سے بھی کچھ اور ترقی دیکر ’’عابر سبیل‘‘راستے سے گزرنے والے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ مؤثر اور بلیغ تشبیہ دنیا میں انسان کے قیام نوعیت اور حیثیت کو بھی واضح کرتی ہے ، اور ایک مومن کے سامنے آخرت کی بے کراں دنیا کو بھی لاکر کھڑا کردیتی ہے اوراس کی نگاہوں کے سامنے آخرت کی حقیقی اور اصلی اور دائمی زندگی روشن ہوجاتی ہے ،اور اس دنیا کی حقیقت اس کے سامنے ایک عارضی پڑاؤ اورسفر آخرت کی ایک منزل کی مانند نظر آنے لگتی ہے ۔او ر مومن کو مسافرت کا احساس دلانے کے چند فائدے ایک تھوڑی سی توجہ سے معلوم ہوجاتے ہیں۔

جس طرح ایک مسافر کے لیے سفر کا کوئی مقام اور ہدف مقصود اور مطمح نظر کی حثییت نہیں رکھتا بلکہ عارضی ہوتا ہے،ٹھیک اسی طرح ایک مومن کے لیے یہ پوری دنیا ہدف مقصود اور مطمح نظر کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ اس کا ہدف مقصود وہ گھر ہے جہاں مرنے بعد اس کو پہنچنا ہے۔
جس طرح سے اپنے کام سے کام رکھنے والا مسافر ان تمام خرابیوں اور کو تاہیوں سےخود کو محفوظ رکھتا ہےجوملنے ملانے والے جان پہچان والے لوگوں کےساتھ اور کسی جگہ مستقل اقامت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے مثلاً کینہ ور، حسد، نفاق، عداوت اور منازعت وغیرہ ، اور دوران سفر دیگر انجان مسافروں سے اپنے جان و مال کی حفاظت کرتا ہے ،اور ان سے زیادہ قرابت داری اور بے تکلفی نہیں بڑھا تا بلکہ ان سے ہمہ وقت ہوشیار اور چوکنا رہتا ہے ،ٹھیک اسی طرح سے ایک مومن کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ان سارے خصائل سے محفوظ رکھے اور غفلت میں نہ رہے بلکہ منزل مقصود کا دھیان رکھے۔
جس طرح سے وہ مسافر جس کو لمبی مسافت طے کرنی ہوتی ہے توایسا مسافر ہر ایسی بات سے اجتناب کرتا ہے جو اس کو اصل مقصود سے غافل کرنے والی ہو،اور منزل کو کھوٹی کرنے والی ہو ،اسی طرح سےایک مومن کو ہر بات سے اجتناب کرنا چاہیے جو اس کی منزل مقصود(آخرت) کے لیے نقصان دہ ہو ۔
جس طرح سے وہ مسافر جو اپنے وطن اوربال بچوں سے دور ہو ،اس کا دل ہر وقت اپنے گھر کے خیال میں لگا رہتاہے، اسی طرح ایک مومن کو چاہئے کہ اس کادل اپنے وطن اصلی اور اصلی ڈھکانے کی طرف لگا رہنا چاہئے۔
جس طرح ہر شریف النفس مسافر اس بات کی کوشش میں رہتا ہے کہ اس کاسفر کامیاب ہو اور اپنے گھر خیر وعافیت سے پہنچے ۔ اور یہ سوچتا رہتا ہے کہ جب وہ گھر واپس لوٹے تو تمام گھر کے افراد اس کو دیکھ کر خوش ہوجائیں اور اس کا والہانہ استقبال کریں ،اور خلوص دل کے ساتھ اس کا خیر مقدم کریں ، ٹھیک اسی طرح اس سفر آخرت کے مسافر کو چاہئے کہ اس کا دھیان اور دل اسی فکر میں رہے کہ جب وہ اس دارفنا سے دار بقا کو جائے تو وہاں اس کا والہانہ اور گرم جوشی سے استقبا ل ہو ، اور مرحبا مرحبا کی صدائیں بلند ہوتی ہوں ،جنت کے فرشتے اور جنت کی حوریں اس کا والہانہ انداز میں استقبال کریں۔ اس کا آقا اس سے خوش ہواور آقاء کے کارندے اس کا اہلاً وسہلا مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کریں۔
جس طرح سے ایک مسافر سفر کی عارضی صعوبتوں اور چند روزہ تکالیف اور پریشانیوں کی پروا کئے بنا بعد میں حاصل ہونے والی راحت اور اپنے مقصد اصلی کے حصول تک ان صعوبتوں کو برداشت کرتا رہتاہے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پریشانیاں جز وقتی ہیں پھر اس کے بعد راحت ہی راحت ہے۔ اسی طرح سے ایک مومن کو دنیا کی عارضی اور چند روزہ صعوبتیںاور شدائد کے علی الرغم اپنے مقصد زندگی کے حصول میں لگا رہنا چاہئے۔
’’او عابر سبيل‘‘ فرماکر حالت سفرکو مزید ترقی اور وسعت دی گئی ہے کہ۔ ایک تو وہ غریب مسافر جس نے کسی نہ کسی طرح عارضی طور پر ہی سہی قیام پذیر ہوجائے ،اس کو کچھ نہ کچھ راحت حاصل ہوہی جاتی ہے ،لیکن وہ مسافر جس کو کوئی ٹھکانا ہی نہ ملے یا کسی ٹھکانے پر ہی نہ پہنچ پائے ،بلکہ ابھی راستہ ہی قطع کررہاہے ،اور رات کاوقت ہوا جاتا ہے۔ایسے میں اس مسافر کی مسافرت تنگ اور شدید ہوجاتی ہے، لیکن پھر بھی یہ دور دراز اور خطرات سے بھر پور راہ کا راہی ہر طرف سے چوکنا بیدار رہتا ہے اور ہمت نہیں ہارتا اور اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن رہتاہے اور اس غیرب مسافر کے مقابلہ میں تھک کر نہیں بیٹھتا یا واپسی کا قصد نہیں کرتا ، بلکہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس بات کو روا نہیں رکھتا جو اس کی راہ میں رکاوٹ بن جائے ،اور منزل مقصود کے حاصل ہونے تک اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے تھک کر ہمت نہیں ہارتا۔ اسی طرح سے ایک مومن جس کی منزل دور ہے وہ ایک باہمت راہ رو کی طرح اپنی موت اور آخرت کی تیاری میں منہمک رہتا ہے۔



’’اور اپنے آپ کو اہل قبور میںشمار کرو‘‘ یہ جملہ بھی اپنے اندر بہت سے معانی سمیٹے ہوئے ہے ،اور گزشتہ جملوں کی نئی تعبیر ہے ، جس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ ایک زندہ انسان خود کو مردہ شمار کرلے اور مردوں اور نکموں کی طرح اپنے آپ کو معطل کرلے اور بیکار ہوکر بیٹھ جائے ، نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردے دنیوی زندگی کی تمام ضروریات سے فارغ ہو کر اپنے مکافات عمل کے لیے اپنے مولیٰ کے حضور میں حاضر ہوتے ہیںاسی طرح سے ایک مومن کو چاہئے کہ وہ دنیا کے تمام عیش وآرام سے بے نیاز ہوکراپنی تمام تر توانائی اور جدوجہد اپنے مولا کی خوشنودی اور اس کے سامنے سرخ رو ہونے کی کوشش کرتا رہے ، اس کو اپنا مقصد اصلی بنا لے اور اس کے حصول تک ،چاہے اس کو کتنی بھی صعوبتوں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے چاہے اس کے لیے اس کو بھوکا رہنا پڑے اور سد رمق بھی اس کو حاصل نہ ہو ، ایسے ناگزیر حالا ت میں بھی اس کو حدود اللہ کو قائم رکھنا چاہئے اور قدم حدود اللہ سے باہر نہ نکالنے چاہئے اس کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ مرچکا ہے اب اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ، اس طرح سوچنے پر مومن معطل اور بیکار نہیں بلکہ رواں دواں اور ہمہ دم محرک متحرک اور فعال بنا رہتاہےاور پھر ایسے مرد مجاہد کو منجانب اللہ روحانی غذا بہم پہنچائی جاتی ہے اور جو اس کو توانائی بخشتی ہے۔
اس تشبیہ کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح کوئی مردہ کسی کو اذیت نہیں پہنچاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی خلق الہٰہ کو تکلیف رنج و دکھ نہیں پہنچاتااور صرف انسان ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق خود کواس سے مامون اور محفوظ سمجھتی ہے ۔ اس لیے ایک مومن کو اللہ کی مخلوق کی اذیت رسانی سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ اسی جملہ کے ہم معنٰی ایک اور مشہور جملہ ہے’’ موتوا قبل ان تموتوا‘‘(مرنے سے پہلے مرجاؤ)، یعنی اللہ تعالیٰ کے محاسبہ سے پہلے اپنا محاسبہ کرلو، یہ جملہ بھی زیر بحث جملہ کی تشریح کرتا ہے ،اور اس کے مفہوم کو واضح کرتا ہے ۔
اگر دیکھا جائے توموت توشروع سے ہی ساتھ پیدا ہوئی تھی، جب انسان اس جگ میں آنکھ کھولتا ہے ۔ ہر بیتا ہوا لمحہ اور گزرا ہوا پل ۔ کچھ پلٹ کر آنے والا نہیں ہے۔ انسان کی گزری ہوئی زندگی اور اس کی گزری ہوئی بے چینی، اور کسک اور کمی یہ سب بیت گئی (ماضی بن گیا) اب یہ پھر کبھی لوٹے گا نہیں۔اس طرح سے یہ انسان جتنا زندہے اتنا ہی وہ مر بھی تو چکا ہوتا ہے۔ جو آنے والا ہے وہ ہوا ہے اور جو بیت گیا وہ بھی تو موت ہی ہے، اس لیے یہ جیون بس اتنا ہی جتنا اب ہے۔’’ بس! اس کے لیے جیتے ہو؟ ‘‘’’کس کی تمنا! اور کس کی آ رزو کرتے ہو؟‘‘ اس لیے بس مرنے سے پہلے مرجاؤ۔
آگے چلتے ہیں حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے:
’’جب تم شام کرو توصبح کا انتظار نہ کرو‘‘ اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو‘‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ موت ہر وقت پیش نظر رہنی چاہئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے موت کی جو ساعت مقرر کی ہے وہ کسی کو معلوم نہیں،اور جب وہ آجاتی ہے تو تاخیر کا کوئی مطلب نہیں ، جو لوگ حساب آخرت کا عقیدہ رکھتے ہیں ،ان سے بہت سے کام اس لیے سرزد ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنی موت یاد نہیں رہتی ، یہی وجہ ہے کہ یہ غفلت بہت سے نیک کاموں میں کوتاہی کا سبب بن جاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ’’لذتوں کو قطع کرنے والی موت کو اکثر یادکرو‘‘ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ انسان غفلت انگیز ماحول میں رہ کر موت کو فراموش نہ کر بیٹھے اور حدود اللہ سے غافل نہ ہوجائے ، نفس کے ہر ایسے تقاضے کے وقت لذتوں کو قطع کرنے والی شئی یعنی موت کو یاد کرنا گویا سرکش نفس کے منہ میںتقوے کی لگام ڈالنا ہے ۔اس کے علاوہ بعض احادیث میں موت کو یاد کرنے کے دو بڑے فائدے ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔
اگر کوئی شخص موت کو تنگی میں یاد کرے تو وہ اسے کشادہ کردیتی ہے اور اگر کشادگی میں یاد کرے تو وہ اس پر اس کو تنگ کردیتی ہے۔یعنی تنگ حالی ،پریشانی اور مصیبت کے وقت موت کی یاد یہ احساس دلاتی ہےکہ زندگی چند روزہ ہے ،اور بہت جلد ان مصائب ومشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا۔اس احساس سے مصیبت کی شدت کم ہوجاتی ہے،اور تنگی کشادگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور لذت خوشحالی ،عیش وفروانی میں اس کی یاد یہ احساس دلاتی ہے کہ موت پیچھے لگی ہوئی ہے معلوم نہیں کب آجائے،اس لیے اس لذت و عیش وآرام میں انہماک بیکار ہے ، اس طرح سوچنے پر یہ کشادگی تنگ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مومن شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔
’’ اپنی صحت سے بیماری کے لیے اور اپنی زندگی سےموت کے لیے ذخیرہ حاصل کرو‘‘یہ جملے مومن کو اطاعت و فرمانبرداری ،عبادات اور اعمال خیر کی ذخیرہ انداوزی پر ابھارتے ہیں،آمادہ کرتے ہیں ۔اس لیے ایک مومن کو موت کو ہمہ وقت یاد رکھنا چاہئے۔اور صحت وتوانائی و جوانی کے ایام میں انسان کو اعمال صالحہ کی ذخیرہ اندوزی کرلینی چاہئے یہی حدیث شریف کے ان الفاظ کا مفہوم ہے۔
دو نعمتیں ایسی ہیں جن سے انسان کافی فائدہ حاصل کرتے ہیںصحت اور فراغت، اس حدیث شریف میں صحت اور فراٖغت کوسرمایہ تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح کہ ایک وہ تاجر جو منافع اور فائدہ کے وقت اپنے مال کو تجوری یا گودام میں رکھتا ہے اور وقت کا فائدہ نہیں اٹھا تا یقیناً اس سے زیادہ احمق اور گھاٹا اٹھانے والا کوئی اور نہیں ہوسکتا، اسی طرح سے وہ لوگ بھی سخت گھاٹے اور نقصان والے ہیں جو تندرستی اور صحت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی بندگی نہ کرسکتے ہوں ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کا آخری یہ جملہ :
’’اے عبداللہ تم نہیں جانتے کہ کل تمہارا کیا نام ہوگا‘‘ اس جملے کے دو معنٰی یا مطلب ہیں ،ایک یہ کہ کل قیامت میں تمہارا نام سعادت مند لوگوں میں شامل ہوگا یا بدبخت لوگوں میں۔
اور دوسرا یہ کہ معلوم نہیں کہ کل تمہیں زندہ کہا جائے گا یا مردہ، اس لیے اگر کوئی یہ چاہے کہ کل قیامت میں اس کا نام سعادت مند گروہ میں لیاجائے تو اس کو چاہئے وہ اپنی جوانی اور صحت کا صحیح استعمال کرے اور غفلت میں ان اوقات کو نہ گزارے معلوم نہیں پھر نیکی کرنے کا موقعہ ملے یا نہ ملے اور اچانک موت آجائے یا کوئی حادثہ پیش آجائے اور توبہ کا بھی موقعہ نہ ملے ۔ واللہ اعلم بالصواب

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.